خارجہ پالیسی: محتاط اظہار ِخیال ۔۔۔۔۔

سفارت کاری میں اس بات کی اہمیت انتہائی زیادہ ہے کہ کب عوامی سطح پر کوئی بات کہی جائے اور کب خاموش رہا جائے۔ الفاظ کے نتائج بھگتنے پڑتے ہیں‘ کبھی آپ اس کیلئے تیار ہوتے ہیں اور کبھی نہیں ہوتے۔ خارجہ پالیسی انتہائی نازک معاملہ ہے اور اسے درست طور پر کسی بھی ملک کی پہلی دفاعی لائن کہا جاتا ہے۔ اس حوالے سے پالیسی سازی اور اس کی وضاحت کیلئے بہت زیادہ سوچ بچار اور معاملہ فہمی کی ضرورت ہوتی ہے۔ خارجہ پالیسی کو عوامی سطح پر جس انداز میں پیش کیا جاتا ہے وہ اسے کم یا زیادہ مؤثر بناسکتا ہے ساتھ ہی وہ دوسرے ممالک کے ساتھ تعلقات پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔ خارجہ پالیسی پر دیئے جانے والے بیانات پاکستان کے سفارتی تعلقات‘ دنیا کے سامنے ہماری شبیہہ اور بین الاقوامی رائے پر منفی یا مثبت اثرات مرتب کرسکتے ہیں۔ خارجہ پالیسی پر دیئے جانے والے بیانات میں یہ فرق نہیں کیا جاتا کہ یہ بیانات صرف ملکی عوام کیلئے ہیں یا پھر بین الاقوامی برادری کیلئے‘ یہی وجہ ہے کہ خارجہ پالیسی پر کوئی بھی بیان دینے سے قبل الفاظ کو تولنا بہت ضروری ہے لیکن اعلیٰ حکومتی عہدے دار خارجہ پالیسی کے حوالے سے بیانات اور انٹرویوز دیتے ہوئے ان باتوں کو نظر انداز کر یں تو نتیجتاً غیر ضروری الجھاؤ پیدا ہوتا ہے جو ملک کے لئے سودمند نہیں ہوتا۔  فی الوقت افغانستان کے حالات خطرناک ہیں اور افغانستان کے مستقبل کا براہئ راست اثر پاکستان پر بھی ہوگا۔ ایسی صورتحال میں بھی کچھ وزرأ اس قسم کے بیانات دے رہے ہیں جو خارجہ پالیسی کے مطابق نہیں ہیں۔ سرکاری اعلانات میں مستقل مزاجی کا ہونا بہت ضروری ہے تاکہ خارجہ پالیسی کی وضاحت ہوجائے اور خارجہ معاملات کے حوالے سے پاکستان کے مفادات اور مقاصد پر کوئی ابہام نہ رہے تاہم اس عزم کو اس وقت ٹھیس پہنچتی ہے جب  وزارت خارجہ کے علاوہ دیگر وزرأ بھی  خارجہ معاملات پر بیانات دینا شروع کردیتے ہیں۔ صرف دیگر وزرأ ہی نہیں بلکہ جو لوگ خارجہ پالیسی کے حوالے سے بیانات دینے کے ذمہ دار ہیں انہیں بھی یہ سوچنا چاہئے کہ کیا خارجہ معاملات پر بہت زیادہ گفتگو کرنا یعنی روزانہ کی بنیاد پر پریس کانفرنس کرنا یا ٹیلی ویژن پر آنا مؤثر ثابت ہوگا اور کیا ایسا کرنا احتیاط کے تقاضوں پر پورا اترتا ہے؟ روزانہ کی بنیاد پر بیانات دینے سے ان کی اہمیت کم ہوجاتی ہے۔ یہی نہیں بلکہ اس کے نتیجے میں بعض اوقات غلطیاں بھی ہوجاتی ہیں یہ اصول خارجہ معاملات کے ذمہ داروں پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ کچھ وضاحتیں ترجمانوں کے لئے چھوڑ دینے میں ہی عافیت ہوتی ہے۔ حکومت کی جانب سے خارجہ پالیسی پر آنے والے بیانات کا ایک پہلو عوامی سیاست اور عوامی مقبولیت بھی ہوتی ہے۔ یہ رجحان ان دیگر ممالک میں بھی دیکھا گیا ہے جہاں عوامی سیاست کو اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ ظاہر ہے کہ عوام کو خارجہ پالیسی سمجھانا اور خارجہ پالیسی کے مقاصد پر اتفاق رائے پیدا کرنا ضروری ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ایسے اشتعال انگیز بیانات دیئے جائیں جن سے دیگر ممالک کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کو ٹھیس پہنچے۔ جب آپ محض عوامی مقبولیت کی خاطر خارجہ پالیسی سے متعلق بیان دیتے ہیں تو اس سے یہ خدشہ پیدا ہوسکتا ہے کہ بین الاقوامی برادری کے سامنے ملک غیرسنجیدہ اور غیر متوقع حیثیت میں پیش ہو۔ عمومی مشاہدہ کیا گیا ہے کہ ہم میں ماضی کو کریدنے اور اس بات کا بار بار اظہار کرنے کی عادت پڑ چکی ہے کہ کس طرح کسی دوسرے ملک کے ساتھ ہمارے تعلقات میں ہم سے بُرا رویہ رکھا گیا۔ اندرونی سطح پر دوطرفہ تعلقات کا تجزیہ کرتے ہوئے تو ایسا کیا جاسکتا ہے لیکن اس موضوع کو عوامی تقریروں کا حصہ بنانے میں کوئی فائدہ نہیں۔ یہ ماضی کو بھلا کر آگے بڑھنے کی اہلیت نہ ہونے اور مستقبل کے حوالے سے بامقصد سوچ کے فقدان کی عکاسی کرتا ہے۔ عوامی سطح پر مظلومیت کے اظہار پر بننے والا بیانیہ نہ ہی خارجہ تعلقات بنانے میں مددگار ہوتا ہے اور نہ ہی کسی چیز کی بحالی کیلئے عوام کو متحرک کرتا ہے۔ مربوط، پراعتماد اور باوقار طریقے سے خارجہ پالیسی کا عوامی سطح پر اظہار ”سٹیٹ کرافٹ“ کا لازمی حصہ ہے لیکن اسے عوامی مقبولیت یا سیاسی پوائنٹ سکورنگ کیلئے استعمال نہیں کرنا چاہئے کیونکہ اس کے نتیجے میں دیگر ممالک اور اداروں کے ساتھ پاکستان کے (خارجہ) تعلقات داؤ پر لگ جاتے ہیں۔ (مضمون نگار برطانیہ‘ امریکہ اور اقوام متحدہ میں بطور سفارتکار پاکستان کی نمائندگی کر چکی ہیں۔ بشکریہ: ڈان۔ تحریر: ڈاکٹر ملیحہ لودھی۔ ترجمہ: ابوالحسن اِمام)