بلوچستان: امکانات کا جہاں ۔۔۔۔۔

پاکستان کے چھوٹے صوبوں میں پایا جانے والا احساس محرومی اگر کہیں شدت سے محسوس ہو رہا ہے تو وہ بلوچستان ہے جہاں اِس احساس محرومی کی گہری بنیادیں (وجوہات) بھی ہیں کیونکہ اب تک بلوچ عوام کے حقوق اور بلوچستان کی ترقی کے لئے اعلانات تو بار ہا کئے گئے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اس سلسلے میں ہونے والی پیش رفتوں کی تعداد بہت کم اور رفتار بہت سست ہے۔ اس صورتحال کا فائدہ بلوچستان میں موجود علیحدگی پسند عناصر اٹھاتے ہیں اور بھارت سمیت کئی ممالک بھی اس سلسلے میں اپنا منفی کردار بھرپور طریقے سے ادا کرتے ہیں۔ اب ریاست ایک بار پھر پاکستان دشمن عناصر کی سازشوں اور ریشہ دوانیوں کو ناکام بنانے کیلئے کمر بستہ ہورہی ہے۔ اس سلسلے میں وزیراعظم عمران خان نے سوموار کو گوادر میں بلوچ طلبہ اور عمائدین سے ملاقات کی۔اس موقع پر وزیراعظم نے کہا کہ ناراض بلوچوں سے مذاکرات کا سوچ رہا ہوں۔ ناراض ہونے والوں کو شاید پرانے رنج ہوں اور دیگر ملکوں سے استعمال بھی ہوئے ہوں۔ ماضی میں ملک کے سربراہوں نے بلوچستان کو وہ توجہ نہیں دی جو دینی چاہئے تھی۔ بلوچستان کی سوچ پاکستان کی سوچ ہے۔ اس موقع پر گوادر میں ترقیاتی منصوبوں کا افتتاح بھی کیا گیا جن میں گوادر فری زون‘ ایکسپو سینٹر اور ایگری کلچرل انڈسٹریل پارک کے ساتھ ساتھ تین فیکٹریاں بھی شامل ہیں۔ علاوہ ازیں‘ گوادر میں پانی اور بجلی کے مسائل کے حل کیلئے شمسی توانائی اور ڈی سیلی نیشن پلانٹ کی معاہدوں پر دستخط بھی ہوئے ہیں۔ تاریخ میں ایسا پہلی مرتبہ ہو رہا ہے کہ کوئی حکومت قدرتی وسائل اور باصلاحیت افرادی قوت سے بھرپور صوبے پر توجہ دے رہی ہے۔ سڑکوں کے جال‘ صنعتی ترقی سے روزگار کی فراہمی‘ زراعت کی ترقی اور بنیادی سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنا رہے ہیں۔ گوادر منصوبے بلوچستان کے عوام کو ترقی کی نئی راہ پر ڈالیں گے۔ انٹرنیشنل ائرپورٹ کی تعمیر سے گوادر براہ راست دنیا سے منسلک ہو جائے گا۔ پاکستان کو عظیم مملکت بنانا میرا خواب ہے‘گوادر پاکستان کا فوکل پوائنٹ بنے گا جس سے بلوچستان ترقی کرے گا۔وزیراعظم عمران خان کا یہ کہنا درست ہے کہ بلوچستان پر زیادہ توجہ دی جانی چاہئے تھی۔ اس سلسلے میں پاکستان پیپلز پارٹی کی وفاقی حکومت نے سال 2009ء میں ’آغازِ حقوق بلوچستان پیکج‘ کا اعلان کیا جس کے تحت نہ صرف ہزاروں نئی نوکریاں اور اربوں روپے کے فنڈز دیئے گئے بلکہ سیاسی کارکنوں اور جلاوطن بلوچ رہنماؤں کے خلاف درج مقدمات بھی واپس لئے گئے۔ اسی طرح مسلم لیگ نواز نے بھی اپنے دور حکومت میں ’پْرامن بلوچستان مفاہمتی پالیسی‘ کا اعلان کیا۔ دوہزارپندرہ میں اختیار کئے گئے منصوبے کے تحت ہتھیار ڈالنے والے عسکریت پسندوں کیلئے نہ صرف عام معافی کا اعلان کیا گیا بلکہ انہیں پانچ سے پندرہ لاکھ روپے فی کس امداد دینے‘ ان کے بچوں کی مفت تعلیم اور ان کیلئے روزگار کا وعدہ بھی کیا گیا۔ اس منصوبے کے اعلان کے بعد بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے)‘ بلوچ ری پبلکن آرمی (بی آر اے)‘ بلوچ لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف) اور تحریک طالبان پاکستان سمیت کئی کالعدم تنظیموں سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں عسکریت پسندوں نے کوئٹہ‘ ڈیرہ بگٹی‘ کوہلو‘ سبی‘ آواران‘ خضدار‘ کیچ‘ پنجگور اور گوادر سمیت بلوچستان کے کئی شہروں میں ہتھیار ڈالے۔ اسی منصوبے کے تحت اس وقت کے وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالمالک بلوچ نے جلا وطن بلوچ رہنماؤں سے ملاقات کیلئے یورپ کا دورہ بھی کیا۔ بلوچستان کی ترقی اور بلوچ عوام کی محرومیوں کے ازالے کیلئے اب تک وفاقی حکومت کی طرف سے کی جانے والی کوششوں کے بار آور نہ ہو پانے کی ایک وجہ بلوچستان کی اندرونی سیاست بھی ہے جس میں مختلف دھڑے ایک دوسرے کے خلاف بھی ہیں اور ایک دوسرے سے خائف بھی۔ علاوہ ازیں‘ بھارت سمیت کئی بیرونی عناصر بھی بلوچستان میں بد امنی پھیلانے کے لئے سرگرم ہیں۔ اس صورتحال میں ناراض بلوچوں اور جلا وطن بلوچ رہنماؤں کی شکایات کے ازالے کے لئے وفاقی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو بھرپور کوشش کرنی چاہئے۔ بلوچستان کی ترقی اور وہاں امن و امان کا قیام پورے ملک کی خوشحالی کی ضمانت ہے۔ اس سلسلے میں معاشی سفارتکاری کے بین الاقوامی اصولوں کو سامنے رکھتے ہوئے بلوچستان میں موجود اور وہاں سے تعلق رکھنے والے ایسے تمام عناصر کی ناراضی دور کی جانی چاہئے جو پاکستان کی فلاح و بہبود اور استحکام میں کردار ادا کرنے کے خواہاں ہیں۔ اُمید یہ بھی ہے کہ ماضی کی طرح وفاقی حکومت نے بلوچستان کی ترقی کیلئے جو اعلانات کئے ہیں اُنہیں عملی جامہ پہنایا جائے گا۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: ڈاکٹر عظمت نعیم۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)