سستی گاڑیاں ۔۔۔۔۔

کیا آپ ایک سستی گاڑی خریدنا چاہتے ہیں؟ کیا نئی حکومتی حکمت عملی سے پاکستان میں موٹرگاڑیوں کی قیمتیں کم ہوں گی؟ خوشخبری یہ ہے کہ وفاقی وزیر صنعت و پیداوار مخدوم خسرو بختیار نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ”حکومت چاہتی ہے کہ موٹر سائیکل پر سفر کرنے والے ترقی کر کے اپنی گاڑی کے مالک بن جائیں۔“ وفاقی وزیر نے اُن چند اقدامات کا ذکر بھی کیا جس کے ذریعے اس طبقے کو گاڑی خاص کر چھوٹی کار کا مالک بنایا جا سکے گا۔ نئی آٹو پالیسی کے تحت جہاں گاڑیوں کی صنعت کو فروغ دیا جائے گا تو اس کے ساتھ کچھ ایسے اقدامات بھی اٹھائے گئے ہیں کہ جس کے ذریعے گاڑیوں کی قیمتوں میں کمی لائی جائے اور خاص کر کم پاور کی گاڑیوں کو اس طبقے کی پہنچ میں لایا جا سکے جو موٹر سائیکل پر سفر کرتا ہے۔ سب سے پہلے تو ’اپ فرنٹ پیمنٹ‘ یعنی ڈاؤن پیمنٹ کو کم کر کے بیس فیصد تک کر دیا گیا ہے۔ یہ وہ کم سے کم رقم ہے جو قسطوں پر کار خریدنے کیلئے ادا کرنا لازم ہوتی ہے۔ چھوٹی گاڑیوں کی قیمتوں میں کمی لائی گئی ہے اور آخر میں گاڑیوں کی لیز پر حصول کے طریقہ کار کو آسان بنایا جائے گا۔ حکومت کی جانب سے بجٹ میں گاڑیوں پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی اور سیلز ٹیکس کی مد میں رعایت دی گئی خاص کر کم پاور کی کاروں پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی ختم اور سیلز ٹیکس کی شرح میں کمی کی گئی تاکہ ملک میں موٹرگاڑیوں کی قیمت میں کمی آ سکے۔ ٹیکس کی مد میں رعایت سے جو تخمینے سامنے آئے ہیں ان کے مطابق 850سی سی گاڑی کی قیمت میں سوا لاکھ تک کمی ہو گی اسی طرح اس سے اوپر ایک ہزار سی سی گاڑی کی قیمت میں ڈیڑھ لاکھ کے لگ بھگ کمی واقع ہو گی۔کیا حقیقت میں موٹرگاڑیوں کی قیمتوں میں کمی اِس قدر ہے کہ اِس سے موٹر سائیکل سوار گاڑی کے مالک بن جائیں گے؟ شاید ایسا ممکن نہیں ہوگا کیونکہ پچاس ہزار روپے ماہانہ تنخواہ (یا آمدنی) رکھنے والوں کے لئے گھریلو اخراجات بمشکل پورے ہوتے ہیں اُور اگر کوئی شخص کرائے کے گھر میں رہتے ہوں تو اُن کے لئے پچاس ہزار روپے ماہانہ میں گھر کا خرچ چلانا زیادہ مشکل ہوتا ہے۔ ٹیکسوں میں کمی کے باوجود گاڑیوں خاص کر چھوٹی کاروں کی قیمت اتنی کم نہیں ہوئی کہ موٹر سائیکل پر سفر کرنے والا گاڑی کا مالک بن جائے۔ پاکستان میں جو طبقہ موٹر سائیکل کی سواری کرتا ہے اس کی اگر زیادہ سے زیادہ تنخواہ بھی لی جائے تو وہ ستر ہزار ماہانہ بنتی ہے جس میں اسے گھریلو اخراجات کے بعد کچھ ایسا خاص نہیں بچتا کہ وہ دس بارہ لاکھ کی گاڑی خرید سکے۔ اگرچہ حکومت کی جانب سے ٹیکسوں میں کمی کے اقدامات کو سراہا تاہم گاڑی کی قیمت ابھی بھی آمدنی کے لحاظ سے متوسط طبقے کی قوت خرید سے زیادہ ہے جو موٹر سائیکل استعمال کرتا ہے۔حکومت کی جانب سے موٹر گاڑیوں پر عائد ٹیکس کی شرح کم کی گئی ہے تاہم یہ کمی اتنی زیادہ نہیں کہ اِس سے موٹر سائیکل پر سواری کرنے والوں کو گاڑی کا مالک بنا دیں گی۔ اول تو موٹر سائیکل پر سواری کرنے والے کے مالی وسائل ایسے نہیں ہوتے کہ وہ پاکستان میں گاڑی چاہے چھوٹی ہی کیوں نہ ہو وہ اسے خرید سکے اور اگر ایک بار خرید بھی لے تو اس کے اخراجات اور اس کی مرمت اس کے بس کی بات نہیں۔ اگر کوئی بینک سے بھی گاڑی لینا چاہے تو بلند شرح سود میں اس کے لئے مالی طور پر ممکن نہیں کہ وہ ماہانہ قسط ادا کر سکے۔ پاکستان میں موٹر گاڑیوں کی قیمتیں ابھی بھی بہت زیادہ ہیں۔ اگر گاڑیوں کی قیمتوں میں تھوڑی بہت کمی واقع ہوئی ہے تو وہ بھی حکومتی اقدامات سے جن کے ذریعے ٹیکسوں میں چھوٹ دی گئی۔ پاکستان میں سب سے کم پاور کی گاڑی سوزوکی آلٹو ہے جس کا آٹو میٹک ورژن ساڑھے سولہ لاکھ میں دستیاب ہے اور اگر ٹیکسوں میں کمی کی وجہ سے اس کی قیمت میں ایک سوا لاکھ کی کمی واقع ہوئی بھی ہے تو وہ پھر بھی بہت زیادہ ہے اور متوسط طبقے کی پہنچ سے باہر ہے‘حکومت نے ٹیکس کمی کی صورت اپنا کام تو کر دیا ہے تاہم صرف اِن اقدامات سے قیمتیں اس سطح تک نہیں آ سکتیں کہ موٹر سائیکل پر سفر کرنے والا بھی گاڑی کا مالک بن سکے۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ ٹیکسوں میں رعایت کے ساتھ سٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے شرح سود میں بھی کمی لائی جائے۔ کائی بور اور بینک چارجز کے ساتھ گیارہ فیصد شرح سود پر بینک سے گاڑی لیز کرانا کم آمدنی والے افراد کیلئے ممکن نہیں۔ گاڑیوں کی قیمتیں اس وقت تک کم نہیں ہو سکتیں جب تک لوکل اسمبلرز لوکلائزیشن پر نہ جائیں یعنی انہیں مقامی طور پر خام مال میسر نہ ہو۔ گاڑی بنانے کیلئے پارٹس اور باڈی کیلئے سٹیل کی چادروں سے لے کر پلاسٹک کا سارا سامان تو باہر سے منگوانا پڑتا ہے ایسی صورت میں یہ کیسے ممکن ہے کہ گاڑی کی قیمت نیچے آئے۔ گاڑی کی قیمت کم ہونے کا ایک ہی حل ہے کہ جب اس شعبے میں مقابلہ ہو جو درآمدی کاروں کے ذریعے ہی کیا جا سکتا ہے۔ تجارتی بنیادوں پر کاروں کی درآمد کی اجازت دی جائے تو پانچ سال پرانی گاڑی یہاں آٹھ لاکھ میں دستیاب ہو گی جو ’اپنی خصوصیات میں مقامی طور پر تیار ہونے والی گاڑی سے لاکھ درجے بہتر ہوتی ہے۔‘ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: میاں اختر فاروق۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)