افغانستان: تبدیل ہوتی صورتحال۔۔۔۔

غیرملکی افواج کا انخلأ مکمل ہونے کے بعد افغانستان کی صورتحال کیا ہوگی‘ اِس بارے میں افغان اور مغربی ممالک کے خفیہ ادارے پریشان ہیں اور اِس پریشانی کا جواز امریکہ کی جانب سے غیرمتوقع طور پر افواج کے انخلأ کا فیصلہ اور طالبان سے مذاکرات تھے‘ جس کی وجہ سے طالبان کے حوصلے بلند ہوئے ہیں اور وہ اِس پیشرفت کو اپنی فتح قرار دے رہے ہیں‘  اور ایک نکتہئ نظر یہ ہے کہ یقینی طور پر افغان صورتحال کا زیادہ مایوس کن اختتام نظر آ رہا ہے لیکن یہاں دو دیگر امور بھی یقینی ہیں۔ اول یہ کہ طالبان جنہوں نے 1996-2001ء تک افغانستان میں حکمرانی کی‘ وہ کسی نہ کسی صورت میں واپس آرہے ہیں تاحال طالبان کا کہنا ہے کہ انہیں طاقت کے ذریعے دارالحکومت کابل پر قبضہ کرنے کی کوئی خواہش نہیں ہے لیکن ملک کے بڑے حصوں میں وہ پہلے ہی غالب طاقت ہیں۔  اب تک افغان حکومت کی انٹلی جنس سروس‘ این ڈی ایس‘ امریکی اور دیگر خصوصی دستوں کے ساتھ مل کر کام کرتی رہی ہے۔ یہ حکمت ِعملی اور تعاون صورتحال کو جزوی طور پر ہی قابو کرنے میں کامیاب رہا ہے۔ طالبان نے واضح کر دیا ہے کہ اگر گیارہ ستمبر کے بعد غیر ملکی افواج افغانستان میں رہ گئیں‘ چاہے وہ سفارت خانوں یا کابل کے ہوائی اڈے کی حفاظت کیلئے ہی تعینات کیوں نہ ہوں‘ تو وہ اِسے دوحا معاہدے کی خلاف ورزی سمجھیں گے اور ایسی صورت میں غیر ملکی فوجی دستوں کے خلاف کاروائیاں کی جائیں گی۔ برطانوی خفیہ ادارے کے سابق سربراہ نے امریکی ذرائع ابلاغ سے بات چیت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”اگر مغرب نے افغانستان کو چھوڑ دیا تو اس سے براہ راست برطانیہ کیلئے دہشت گردی کا خطرہ بڑھ جائے گا۔“ جیسا کہ طالبان نے مطالبہ کیا ہے کہ مغربی افواج کا مکمل انخلأ ہونا چاہئے‘ تو ایسی صورت میں مغربی افواج کے پاس دہشت گردی کی کاروائیوں کے بارے میں انٹیلی جنس کی مدد سے کاروائی کرنے کا راستہ موجود نہیں رہے گا۔امریکی حملے کے وقت طالبان حکومت کو تسلیم کرنے والے صرف تین ممالک میں سے ایک سعودی عرب نے اپنے خفیہ ادارے کے سربراہ‘ شہزادہ ترکی الفیصل کو طالبان کے پاس بھیجا تھا تاکہ طالبان اسامہ بن لادن کو امریکہ کے حوالے کرنے پر راضی ہو جائیں۔ اُس وقت طالبان نے انکار کردیا تھا  لیکن برطانیہ کے چیف آف ڈیفنس سٹاف‘ جنرل سر نِک کارٹر‘ جنہوں نے افغانستان میں مختلف قسم کی خدمات انجام دیں کا خیال ہے کہ ”شاید طالبان کی قیادت کو اپنی سابقہ غلطیوں سے سبق حاصل ہوچکا ہوگا۔ اگر طالبان اقتدار میں شراکت کے لئے یا اس پر قبضہ کرنے کی توقع کرتے ہیں تو پھر وہ اس بار بین الاقوامی طور پر ایک الگ تھلگ حکومت نہیں بننا چاہیں گے  (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: ڈاکٹر بہروز انوار۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)