افغان امن: خارجی محرکات 

افغانستان میں قیام امن سے متعلق آثار واضح ہو رہے ہیں اور ماہرین کی نظر میں روس کی افغانستان کے بارے میں غیر جانبدار پالیسی ترک ہو چکی ہے اور وہ طالبان کی حمایت پر آمادہ ہے۔ افغانستان کی بدلتی ہوئی صورتحال روس کیلئے یہ کوئی اچھا موقع نہیں بلکہ مسئلہ ہے۔ افغانستان کی بدلتی صورتحال کے حوالے سے روس کی اعلان کردہ پالیسی یہ ہے کہ اسے وسطی ایشیا میں اپنے اتحادی ممالک کو منفی اثرات سے بچانا ہے۔ اس کے علاوہ روس کے کیا ارادے ہیں یہ واضح نہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ افغانستان میں طالبان کی حالیہ کامیابیوں کے بعد روس افغانستان میں غیر جانبداری کی پالیسی ترک کر کے طالبان کی حمایت پر آمادہ ہو چکا ہے۔  روس دوہزاراُنیس کے بعد سے 2 بار افغان ڈائیلاگ کی میزبانی کر چکا ہے جس میں طالبان کے علاوہ افغانستان کے دوسرے حزب اختلاف گروہوں کو مدعو کیا گیا تھا۔ ان مذاکرات میں روس نے افغانستان کی موجودہ حکومت کو شرکت کی دعوت نہیں دی تھی۔ روس نے کابل کی موجودہ حکومت کو صرف ایک بار افغانستان کے بارے میں ہونے والے ڈائیلاگ میں شرکت کی دعوت دی تھی جس میں تین ممالک (ٹرائیکا پلس) یعنی امریکہ چین اور پاکستان نے بھی شرکت کی تھی۔ مذاکرات سے پہلے افغانستان کے بارے میں روس کے چیف مذاکرات کار ضمیر کابلوف نے کہا تھا کہ وہ افغانستان کی موجودہ حکومت اور طالبان پر زور دے رہے ہیں کہ وہ افغانستان میں ایک پائیدار حکومت کے قیام کیلئے سمجھوتے پر رضامند ہو جائیں لیکن افغانستان میں طالبان کی حالیہ کامیابیوں کے بعد روس نے افغان حکومت سے ہاتھ کھینچ لئے ہیں اور حکام ایسی باتیں کر رہے ہیں جس سے تاثر ملتا ہے کہ روس سمجھتا ہے کہ نیٹو افواج کی روانگی کے بعد اشرف غنی کی حکومت کا افغانستان میں کوئی کردار نہیں بنتا۔ افغانستان کے بارے میں روس کے خصوصی نمائندے ضمیر کابلوف کے مطابق افغانستان کی موجودہ صورتحال کا واحد حل افغانستان میں ایک ایسی وسیع البنیاد حکومت کا قیام ہے جس میں پشتون‘ تاجک اور ہزارہ برادریوں کی نمائندگی ہو۔ ضمیر کابلوف جو افغانستان کی موجودہ حکومت کو ایک ’کٹھ پتلی‘ حکومت کہہ کر پکارتے ہیں‘ ان کا کہنا ہے کہ مستقبل کی افغانستان کی حکومت میں افغانستان کی موجودہ حکومت کا کوئی کردار نہیں ہو گا کیونکہ طالبان ان کے ساتھ بات بھی کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ سابق رشین یونین آف افغانستان کے ڈپٹی چیئرمین ولادیمیر کوشلوف نے روسیا 24 نامی چینل سے بات کرتے ہوئے کہا ’وہ (طالبان) ایسے افراد کا تاثر دے رہے ہیں جو افغانستان کے منشیات کے مسئلے پر قابو پا لیں گے۔ امریکہ نے افغانستان میں منشیات کی پیداوار کو روکنے کی کوشش نہیں کی جس سے ’ہزاروں روسی شہری‘ ہر سال مر رہے ہیں۔ امریکی اتحاد کے افغانستان چھوڑنے کے بعد روس کی بڑی تشویش افغانستان میں تشدد کی کاروائیوں کو اپنے اتحادیوں کی دہلیز تک پہنچنے سے روکنا ہے۔ روس تاجکستان کے ساتھ اپنے معاہدے کی وجہ سے نہ چاہتے ہوئے بھی افغانستان میں ملوث ہونے پر مجبور ہو سکتا ہے۔ کرملین کے ترجمان دمتری پیسکوف نے کہا ہے کہ روس افغانستان میں فوجیں بھیجنے کے حوالے سے افغانستان کی حکومت سے کسی قسم کی بات چیت نہیں کر رہا۔ البتہ ماسکو نے افغانستان کے پڑوسی ممالک‘ ازبکستان اور تاجکستان کے ساتھ اپنے روابط کو بڑھا دیا ہے۔ صدر پوٹین نے پانچ جولائی کو ازبکستان اور تاجکستان کے رہنماؤں سے فون پر بات چیت کی۔ اس ملاقات کے بعد روس کے وزیر خارجہ سرگئی لوروف نے کہا کہ روس تاجکستان اور ازبکستان میں کسی قسم کی جارحانہ مداخلت کو روکنے کیلئے فوجی طاقت سمیت ہر قدم اٹھائے گا۔ سات جولائی کو روس نے اعلان کیا کہ وہ رواں برس تاجکستان میں اپنے فوجی اڈے پر ایک ہزار تاجک فوجیوں کی تربیت کرے گا۔روس کے فوجی دستوں کی علاقے میں تعیناتی کا کوئی امکان نہیں ہے۔ تاجکستان اور ازبکستان میں روسی اڈوں کو افغانستان میں کسی صورتحال سے نمٹنے کے لئے بنایا گیا تھا۔ ماسکو کو طالبان سے کوئی خطرہ محسوس نہیں۔ روسی وزیر خارجہ سرگئی لوروف اس کا اظہار بھی کر چکے ہیں۔ روس کو خدشہ ہے کہ افغانستان میں طالبان کی مکمل کامیابی سے  دیگر تنظیمیں فائدہ اٹھا سکتی ہیں۔ روس کو خدشہ ہے کہ اگر طالبان شمالی افغانستان کے علاقوں میں بغیر کسی روک ٹوک کے تسلط قائم کرتے گئے تو وہاں سے دیگر عسکری تنظیمیں تاجکستان میں اپنے سلیپر سیل بنا سکتے ہیں۔ افغانستان سے امریکی انخلأ کے بعد بیرونی طاقتوں کیلئے افغانستان میں عالمی سیاست کے حوالے بہت سے مواقع پیدا ہوں گے۔ پولیٹکل سائنسدان ولادیمیر پستوکوف کے مطابق افغانستان ایک ایسا ملک ہے جس کے حوالے سے روس کی یادیں خوشگوار نہیں اور اس کی کوشش ہو گی کہ وہ اس بار وہاں مداخلت سے باز رہے البتہ انہوں نے تسلیم کیا کہ تاجکستان کے ساتھ اپنے دفاعی معاہدے کی وجہ سے روس کو شاید نہ چاہتے ہوئے بھی مداخلت کرنی پڑی۔ اِس پوری صورتحال میں اب روس کو افغانستان میں طاقت کے مختلف مراکز پر ہی اکتفا کرنا پڑے گا جن کی وہ ہمیشہ امریکہ کے متبادل کے طور پر وکالت کرتا رہا ہے۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: ڈاکٹر اسفند وقار خان۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)