افغانستان: مستقبل کیا ہوگا؟۔۔۔۔

افغانستان میں قیام امن کی کوششیں سست روی جبکہ خانہ جنگی کے امکانات زیادہ تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ افغانستان کے ہمسایہ ممالک بالخصوص وسط ایشیائی ریاستوں میں تشویش پائی جاتی ہے جنہوں نے اپنی سرحدوں کو جنگجوؤں کے ممکنہ قبضے کے پیش نظر محفوظ بنانا شروع کر دیا ہے جبکہ پاکستان نے بھی افغانستان کے ساتھ قدرے مختلف وجہ سے آمدورفت معطل کر رکھی ہے۔ وسط ایشیائی ریاستوں کی تشویش زیادہ ہے جہاں طالبان کی تیز رفتار پیش قدمی کی وجہ سے سینکڑوں کی تعداد میں افغان سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں نے تاجکستان اور ازبکستان میں پناہ لی ہے۔افغانستان پر حکومت طالبان کے لئے زیادہ مشکل نہیں رہی اور اگر ایسا دوسری مرتبہ ہوتا ہے تو اِس کے اثرات سے بچنے کے لئے وسطی ایشیائی ریاستیں اپنے طور اقدامات کر رہی ہیں۔ مبصرین کا خیال ہے کہ بین الافغان مذاکرات بحال ہونے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں باوجود اس کے کہ گذشتہ سال امریکہ اور طالبان افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلأ کے معاہدے پر پہنچنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ امریکہ اور طالبان کا یہ معاہدہ صرف اور صرف امریکی اور نیٹو فوج کو افغانستان سے نکالنے کیلئے کیا گیا تھا۔ افغانستان کی سرحد سے ملنے والی وسطی ایشیا کی 2 ریاستوں ترکمانستان اور ازبکستان نے طالبان سے براہ راست روابط قائم کرنے کیلئے سفارتی کوششیں پہلے ہی تیز کر دی ہیں۔ تاجکستان افغانستان کی تیسری ہمسایہ ریاست ہے جس کی افغانستان کے ساتھ 1344کلومیٹر لمبی سرحد ہے باقی 2 وسط ایشیائی ریاستوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ طویل سرحد ہے اور یہ پورے خطے میں سب سے غیر مستحکم علاقہ ہے۔ اطلاعات کے مطابق طالبان نے اس پوری سرحد سے متصل افغان علاقوں پر قبضہ کر لیا ہے۔ تاجکستان کے صدر ایموملی رحمون نے جولائی کی پانچ تاریخ کو اپنی وزارتِ دفاع کو بیس ہزار کے قریب فوجیوں کو بلا کر افغانستان کی سرحد پر تعینات کرنے کا حکم دیا تھا۔ توقع ہے کہ روس سات ہزار فوجی اور 100ٹینک تاجک افغان سرحد کو محفوظ بنانے کے لئے روانہ کر رہا ہے۔ روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاروف نے کہا تھا کہ تاجکستان میں روس کی فوج کے ’201فوجی اڈے‘ ہیں جن سے بھی فوجی کمک استعمال کی جا سکتی ہے۔ روس اور اس کے علاقائی اتحادی اس بات پر غور کر رہے ہیں کہ تاجکستان کو مزید فوجی مدد فراہم کرنے کیلئے روس کی سربراہی میں قائم اجتماعی سکیورٹی کے معاہدے میں شامل ملکوں سے مدد لی جائے۔ گذشتہ ماہ ازبکستان کے وزیر دفاع بہادر قربانوف نے اپنے ملک کے جنوبی حصوں کا دورہ کیا تھا جس کا مقصد ان علاقوں میں تعینات بحری اور فضائی افواج کی فوجی تیاریوں کا جائزہ لینا تھا۔ ترکمانستان کے حکام بھی افغان سرحد کے ساتھ فوجیوں کی تعداد میں اضافہ کرنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق وہ اضافی لڑاکا طیارے اور راکٹ لانچر سرحد کے قریب تعینات کر رہے ہیں۔ قازقستان کے نائب وزیر دفاع تیمور ڈنڈی بایوف نے 9 جولائی کو کہا تھا کہ ”ملک کی فوج پوری طرح چوکس اور جنگ کرنے کی حالت میں ہے۔“ کرزغستان کے سکیورٹی کے سربراہ کماچیبک تاشیو نے کہا تھا کہ ”قومی دفاع کو مضبوط کرنے کیلئے کوششوں کو تیز کر دیا گیا ہے۔“ تاجکستان نے کہا ہے کہ ”انہوں نے اچھے ہمسائے ہونے کے ناطے اور انسانی بنیادوں پر ان فوجیوں کو سرحد پار کرنے سے نہیں روکا۔“ جبکہ ازبکستان نے اِس کے برعکس کہا کہ ”اس نے ہر مرتبہ فوری طور سرحد کی خلاف ورزی کرنے والوں کو افغانستان واپس بھیج دیا اور وہ ایسا کرتا رہے گا۔“ ازبکستان کی وزارت ِخارجہ نے اٹھائیس جون کو کہا تھا کہ ازبک حکومت غیر جانبداری اور ہمسایہ ملکوں کے اندرونی معاملات میں عدم مداخلت کی پالیسی پر سختی سے کار بند ہے۔ دریں اثنا ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ افغانستان سے مسلح اور غیر مسلح مہاجرین کی بڑی تعداد میں آمد سے ان ملکوں کی غیر مستحکم معاشی صورتحال پر منفی اثر پڑے گا۔ اگر افغانستان میں آباد ازبک اور تاجک لوگوں کا دس فیصد حصہ بھی جنگ سے جان بچانے کیلئے شمال کا رخ کرتا ہے تو خطے میں عدم استحکام بڑھ جائے گا اور اس پر قابو پانا مشکل ہو سکتا ہے۔ تاجکستان کا مؤقف ہے کہ افغانستان کے لوگ عام طور پر ملک کے اندر ہی نقل مکانی کرتے ہیں اور ان میں سے بہت کم سرحد پار کر کے دوسرے علاقوں میں جانا پسند کرتے ہیں اِس لئے افغانستان سے براہ راست کوئی خطرہ نہیں۔ ماہرین کی اکثریت اس رائے سے اتفاق کرتی ہے کہ طالبان صرف اور صرف کابل پر قبضہ حاصل کرنا چاہتے ہیں اور وسط ایشیائی ریاستوں کیلئے طالبان خطرہ نہیں ہیں۔ دوسری طرف ازبکستان نے ہمیشہ کہا ہے کہ طالبان کو افغانستان میں قیام امن کی کوششوں کا حصہ ہونا چاہئے اور ملک کے نئے صدر سخاوت مرزئیوف کے تحت تاشقند نے حالیہ برسوں میں بین الاقوامی سطح پر خطے میں امن کیلئے کی جانے والی کوششوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا شروع کر دیا ہے۔ کئی ماہ کے مذاکرات کے بعد ازبکستان نے قطر میں طالبان کے دفتر کے ایک وفد کی اگست دوہزاراٹھارہ میں پہلی مرتبہ میزبانی کی تھی اور ازبکستان کے وزیر خارجہ عبداللہ عزیز کاملوف اس کے بعد سے طالبان کے ساتھ قطر میں ان کے دفتر میں کئی بھی ملاقاتیں کر چکے ہیں۔ ازبکستان نے دعویٰ کیا ہے کہ گذشتہ فروری میں امریکہ اور طالبان کے درمیان ہونے والے معاہدے میں اس کی کوششیں بھی شامل ہیں۔ بہرحال طالبان کے برسراقتدار آنے سے وسط اِیشیائی ریاستوں پر اِس پیشرفت کے اثرات مرتب ہوں گے‘ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: کوثر ریحان۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)