کورونا وبا: کام کاج۔۔۔۔

کورونا وبا اور کورونا وبا کی ویکسین کے مابعد دنیا مختلف نظریات کا مجموعہ ہے۔ اس وبا کی ابتدا میں جب اکثر مغربی ممالک اس سے شدید متاثر تھے اور اس وبا سے بچنے کا بھی کوئی طریقہ نظر نہیں آ رہا تھا اس دوران اکثر اداروں نے اپنے دفتری عملے کو دفاتر سے گھروں میں بھیج دیا تھا۔ گھر سے کام کرنا وبا سے محفوظ رہتے ہوئے کام کرنے کا واحد طریقہ تھا۔ امریکہ اور اکثر مغربی ممالک میں دفتری عمارتیں خالی ہوچکی تھیں اور ان کی راہداریوں اور کانفرنس رومز میں خاموشی نے بسیرا کر رکھا تھا اب جبکہ کورونا کی ویکسین متعارف ہوچکی ہے تو یہ ادارے اپنے عملے کو واپس دفاتر میں لانے کی کوشش کر رہے ہیں تاہم ایسا نظر آرہا ہے کہ امریکہ میں ملازمین دوبارہ دفاتر میں کام کرنے میں دلچسپی نہیں لے رہے۔ اس ضمن میں ہونے والی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ ان ملازمین کی ایک بڑی تعداد ایسی ہے جو دفتر میں کل وقتی کام کے بجائے اپنی نوکریاں چھوڑنے کو ترجیح دے گی۔ ظاہری طور پر لگتا ہے کہ ایک سال سے زائد عرصے تک گھر پر رہتے ہوئے کام کرنے سے کئی لوگوں نے اپنی روزمرہ زندگی کے حوالے سے کچھ سوچ بچار کیا ہے۔ اس دوران انہیں دفتر تک کا طویل راستہ طے نہیں کرنا پڑا جو نیویارک جیسے شہر میں دو گھنٹے طویل بھی ہوسکتا ہے۔ انہیں دفتر کے لئے کپڑے نہیں خریدنے پڑے اور اس دوران دفتر میں ہونے والے کھانے کے اخراجات کی بھی بچت ہوئی۔ سب سے اہم بات یہ کہ انہیں دفتر میں پریشان کرنے والے ساتھیوں اور باس سے نمٹنا نہیں پڑا۔ رابطے کے ذرائع میں آنے والی جدت اور ٹیکنالوجی میں ترقی کی وجہ سے وہ آسانی کے ساتھ اپنے ساتھیوں سے بات چیت کرسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ٹیکنالوجی ڈیوائسز کا مطلب یہ ہے کہ اب وہ کام کے دن ہر وقت دستیاب ہیں۔ اکثر لوگوں کیلئے کورونا سے پہلے والے معمولات پر واپس جانا خارج از امکان ہے‘ ایسے لوگ گزشتہ طرزِ زندگی پر واپس جانے کے بجائے کوئی نیا کام تلاش کرنے کو ترجیح دیں گے۔ امریکہ میں افرادی قوت کی کمی کے باعث یہ امکان موجود ہے کہ انہیں کوئی ایسی نوکری مل جائے جہاں آجیر انہیں مکمل طور گھر سے کام کرنے یا بھر ایک ہائبرڈ ماڈل اختیار کرنے کی اجازت دے جس میں ہفتے میں ایک یا دو دن گھر سے کام کی سہولت ہو۔ ہارورڈ یونیورسٹی نے ایک تحقیق کی ہے‘ جس میں لکھا ہے کہ گھر سے کام کرنے کا بڑھتا ہوا رجحان غیر مغربی ممالک کے باصلاحیت افراد کیلئے اچھی خبر ہے۔ اس کی وجہ بھی سادہ ہے اور وہ یہ کہ اگر مغرب میں ”ورک فرام ہوم“ کا نظریہ غالب آگیا تو اس کا مطلب ہے کہ دنیا کے کسی بھی حصے سے لوگوں کو ملازمت پر رکھا جاسکتا ہے۔ اس کو مزید سادہ انداز میں یوں سمجھئے کہ اس طرح کام کرنے والوں کو ملازمت کے مقام تک جانے کی ضرورت نہیں ہوگی بلکہ ملازمتیں خود کام کرنے والوں تک پہنچ جائیں گی۔ اگر کوئی ادارہ سافٹ وئر انجینئرز کی تلاش میں ہے اور اس ادارے کیلئے ورک فرام ہوم ایک عمومی چیز ہے تو پھر وہ کراچی سے بھی کسی انجینئر کو ملازمت پر رکھ سکتے ہیں۔ یوں ’ملازمتی (امپلائمنٹ) ویزا‘ کی ضرورت بھی ختم ہوجائے گی۔ اس طرح کسی کو بھی ایچ ”ون بی ویزا“کے حصول کی قطار میں نہیں لگنا پڑے گا اور ملازمین کہیں سے بھی اور فوری طور پر اپنے کام کا آغاز کرسکیں گے لیکن ہر چیز کی طرح اس کے بھی کچھ منفی پہلو ہیں۔ اپنے ملازمین کو ورک فرام ہوم کی اجازت دینے والے کچھ ادارے تنخواہوں میں کٹوتی پر غور کررہے ہیں۔ مثال کے طور پر فیس بک نے اپنے ملازمین کو کہا ہے کہ وہ کہیں سے بھی کام کرسکتے ہیں لیکن سلی کون ویلی جیسی مہنگی جگہ سے باہر رہ کر کام کرنے والوں کو اس مقام کے حساب سے تنخواہ دی جائے گی جہاں سے وہ کام کر رہے ہوں گے۔ اگر اس اصول کو عالمی سطح پر اختیار کیا گیا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ پاکستان سے کام کرنے والے ملازم کو پاکستان کے حساب سے ہی تنخواہ دی جائے گی۔ مغربی ممالک کی معیشتوں نے پہلے سے ہی ان حالات کے حوالے سے تیاری شروع کردی ہے۔ حالیہ دنوں میں ترقی یافتہ ممالک کی نمائندہ تنظیم جی سیون نے اپنے ہاں اداروں کے کام کرنے کے مقام سے قطع نظر ان پر عائد کم از کم ٹیکس کے حوالے سے منظوری دی ہے۔ یہ قدم ایک ایسے مستقبل کو پیش نظر رکھتے ہوئے اٹھایا گیا ہے کہ جہاں غیر مغربی ممالک کی حکومتیں ٹیکس چھوٹ کے ذریعے مغربی اداروں کو اس بات پر راغب کریں گی کہ وہ ان غیر مغربی ممالک کے افراد کو ملازمت پر رکھیں۔ وہ ملک جہاں ایک ادارہ موجود ہوگا (جو کہ اکثر مغربی ملک ہی ہوگا) وہ ٹیکس کا تعین کرے گا اور اسے اس ادارے سے وصول کرے گا۔ نوکریوں کے حصول کا مقابلہ اب عالمی سطح پر ہوتا نظر آرہا ہے اور مغربی ممالک اس میں آگے رہنے کی پوری کوشش کریں گے۔ پاکستان بھی اپنے باصلاحیت افراد کو منظم کرنے کیلئے چند اقدامات اٹھا سکتا ہے تاکہ وہ غیر ملکی اداروں کی نظر میں آسکیں۔ ایک طریقہ تو یہ ہے کہ بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کو متحرک کیا جائے کہ وہ بیرونِ ملک پاکستانی ٹیلنٹ کو پیش کریں اور ساتھ ہی ایسا نظام مرتب کیا جائے جس کے تحت اداروں کو پاکستانی ملازمین رکھنے کیلئے قانونی تقاضوں کو پورا کرنے میں آسانی ہو۔ کہیں بھی بیٹھ کر کام کرنے کا رجحان اب تقویت حاصل کررہا ہے۔ مکمل تبدیلی میں کچھ وقت تو لگ سکتا ہے کیونکہ ابھی ملازمین کی کارکردگی کے حوالے سے بحث جاری ہے لیکن اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ مستقبل ”ورک فرام ہوم“ کا ہی ہے۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: رافعیہ ذکریا۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)