افغانستان سے غیرملکی افواج کا مکمل انخلاء زیادہ دور نہیں۔ امریکہ کی سنجیدگی 12 جولائی کے مشن کمانڈر سے عیاں ہے جس کیلئے افغان مشن کی کماندانی جنرل فرینک میک کنزی کو سونپ دی گئی اور یوں افغانستان میں امریکی جنگ کا علامتی اختتام ہوچکا ہے تاہم حالات یہ ہیں کہ افغانستان کے 407 اضلاع میں سے 200 پر طالبان کا مکمل کنٹرول ہے اور 124 اضلاع پر قبضے اور کنٹرول کی جنگ جاری ہے جبکہ باقی اضلاع ابھی تک اشرف غنی انتظامیہ کے کنٹرول میں ہیں اور فوجی انخلا کی تکمیل کیلئے گیارہ کی ڈیڈ لائن مقرر کی گئی ہے لیکن لگتا یہی ہے کہ 31 اگست تک امریکی و دیگر غیرملکی افواج کی واپسی کا عمل مکمل ہو جائے گا۔ امریکہ کی افغانستان سے واپسی پراسرار انداز میں ہو رہی ہے۔ امریکیوں نے باگرام ائربیس رات کے اندھیرے میں بجلی بند کرکے خالی کیا اور مقامی کمانڈر کو اطلاع تک نہ دی۔ اب اکتیس اگست کی نئی ڈیڈ لائن سے پہلے ہی امریکی افغانستان چھوڑ چکے ہیں اور صرف ساڑھے چھ سو امریکی فوجی کابل میں رہیں گے‘ جو امریکی سفارتخانے کی سکیورٹی کا کام کریں گے۔امریکی فوج کے انخلاء کے اعلان کے ساتھ ہی طالبان کی پیش قدمی تیز ہوچکی تھی اور وہ ہر روز نیا علاقہ قبضے میں لے رہے تھے لیکن امریکیوں کو اس سے کوئی غرض نہیں تھی۔ شمالی افغانستان جو طالبان کے خلاف مزاحمت کا گڑھ تھا وہ ان کے کنٹرول میں آنے کا ثبوت یہ ہے کہ شمالی اتحاد کا ہیڈکوارٹرز رہنے والا بدخشاں صوبہ طالبان کے قبضے میں ہے۔ بدخشاں کے اٹھائیس اضلاع میں سے چھبیس پر طالبان کا مکمل کنٹرول ہے۔ بدخشاں میں طالبان کی پیش قدمی اس لئے بھی حیران کن ہے کہ کئی اضلاع بغیر لڑائی کے طالبان کے قبضے میں چلے گئے۔ ان حالات میں اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ امریکہ افغانستان سے کیوں نکلا؟ اس کا جواب صدر بائیڈن نے خود دیا تھا جب انہوں نے افغانستان سے انخلاء کے معاہدے پر عمل درآمد کا اعلان کیا تھا۔ صدر بائیڈن نے کہا تھا کہ اس لاحاصل جنگ کو ختم کرکے اب امریکہ کی نمبر ون خارجہ پالیسی ترجیح چین ہوگا۔ جہاں تک امریکی فوجی وسائل افغانستان سے نکال کر انڈوپیسفک میں تعینات کرنے کی بات ہے تو صدر بائیڈن نے جب اقتدار سنبھالا تو افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد بہت محدود تھی‘ چند ہزار فوجی افغانستان میں تعینات رکھ کر طالبان کی پیش قدمی کو روکا جاسکتا تھا۔ افغانستان سے فوج نکالنے کے بعد افغانستان کے اندر طاقت کا توازن بگڑ گیا ہے اور چند ہزار فوجی افغانستان سے نکال کر کہیں اور تعینات کرنے سے بھی عالمی سطح پر طاقت کے توازن میں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ انڈوپیسفک میں امریکی فوجی استعداد بڑھانا پینٹاگون کی ترجیح ہے لیکن افغانستان سے واپس لائے گئے وسائل انڈوپیسفک میں فوجی استعداد بڑھانے کے منصوبے میں سمندر کے اندر قطرے سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے۔ اس کے جواب میں اگر کوئی یہ کہے کہ امریکہ افغانستان میں آپریشنز بند کرکے انڈوپیسفک پر توجہ کا اشارہ دے رہا ہے اور یہ اشارہ اہم ہے‘ تو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ امریکہ افغانستان میں آپریشنز بند نہیں کر رہا بلکہ افغانستان کے باہر سے آپریشنز کا ارادہ رکھتا ہے۔ اس مقصد کیلئے فوری طور پر مشرقِ وسطیٰ میں موجود فوجی اڈے اور خلیج فارس میں تعینات بحری بیڑے استعمال کئے جائیں گے۔ قطر اور عرب امارات سے کئی گھنٹوں کی پرواز کے بعد آنے والے جنگی طیاروں کے فیول کے اخراجات کا اندازہ لگائیں تو افغانستان کے اندر رہ کر اخراجات سے کہیں زیادہ رقم خرچ ہوگی۔ افغانستان کے اندر تعینات فوجیوں کی تنخواہیں اور راشن کے اخراجات تو بچائے نہیں جاسکتے کیونکہ وہ جہاں بھی تعینات کئے جائیں گے یہ اخراجات تو وہاں بھی ہوں گے‘ اضافی فائر پاور کیلئے امریکہ کو بحر ہند میں جنگی بیڑہ بھی کھڑا کرنا پڑسکتا ہے اور اس مقصد کیلئے ان دنوں بھی جنوبی بحیرہ چین سے یو ایس ایس رونالڈ ریگن کو بحر ہند میں تعینات رکھا گیا ہے۔ امریکہ کے ’دور افق سے‘ آپریشنز میں اتحادی بھی زیادہ حصہ ڈالنے کو تیار نہیں ہوں گے۔ اس سے پہلے افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد اتحادی فوجیوں کی مجموعی تعداد سے کم تھی۔ اب فضائی آپریشنز اور نگرانی کی ضرورت ہوگی اور اتحادی امریکہ کے برابر وسائل اور استعداد نہیں رکھتے۔ جہاں تک سفارتی اور بیوروکریسی سطح پر امریکہ کو چین پر توجہ مرکوز کرنے کا معاملہ ہے تو ویسا بھی بالکل دکھائی نہیں دیتا۔ فوجی انخلاء کے فیصلے کے بعد سے ہی امریکہ کو سفارتی اور محکمانہ سرگرمیاں بڑھانی پڑی ہیں اور اعلیٰ امریکی عہدیدار انخلاء کے بعد کی حکمت ِعملی کیلئے سر کھپا رہے ہیں۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: ڈاکٹر نواز ہمایوں۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)