تاشقند کانفرنس: افغانستان قیام ِامن ۔۔۔۔

تعجب خیز ہے کہ پاکستان کی میزبانی میں افغانستان سے متعلق ”امن کانفرنس“ افغانستان کی درخواست پر ملتوی کی گئی ہے کیونکہ افغانستان کی سیاسی قیادت ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ‘ سابق صدر حامد کرزئی‘ گلبدین حکمت یار‘ احمد ولی مسعود‘ نائب صدر احمد ضیا مسعود اور دیگر نے شرکت کرنا تھی لیکن ’مدعی سست گواہ چست‘ کے مترادف پاکستان چاہتا ہے کہ جس قدر جلد ممکن ہو افغانستان میں قیام امن ہو جائے جبکہ ایسا کرنے کیلئے افغان حکمرانوں کی خواہش نہیں۔ دفتر خارجہ نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ مذکورہ تین روزہ کانفرنس افغانستان کی درخواست پر ملتوی کی گئی ہے جو اب شاید عید الاضحی کے بعد کسی وقت ہو جبکہ مذکورہ کانفرنس میں افغان طالبان کو شرکت کی دعوت نہیں دی گئی۔ پاکستان کی خواہش اور کوشش ہے کہ افغانستان اپنی سلامتی کو لاحق خطرات اندرونی طور پر حل کرے اور خراب حالات کیلئے ہمیشہ کسی ہمسایہ ملک (بالخصوص پاکستان) کو ذمہ دار قرار دینے کی روش ترک کر دے۔ حالیہ چند دنوں میں پاکستان اور افغانستان کے رہنماؤں کے درمیان ملاقات ہوئی ہے جس میں صدر اشرف غنی کے ہمراہ حنیف اتمر جبکہ وزیراعظم عمران خان کے ہمراہ شاہ محمود قریشی‘ معید یوسف اور ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی جنرل فیض حمید موجود تھے اور اِس ملاقات سے الگ ہوئی کانفرنس میں ازبکستان کے صدر جبکہ سعودی‘ چینی‘ بھارتی و روسی وزرائے خارجہ سمیت وسطی ایشیائی ریاستوں کے رہنما شریک تھے۔افغانستان قیام امن کے حوالے سے پاکستان اور افغانستان کی قیادت کے درمیان بداعتمادی پائی جاتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ایک دوسرے پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا گیا ہے۔ وہ بحث جو کہ سوشل میڈیا سے شروع ہوئی تھی اب اُسی لب و لہجے میں دونوں ممالک کے سربراہوں کے درمیان تبادلہئ خیال میں بھی سنائی دے رہی ہے۔ ازبکستان کے شہر تاشقند میں ہوئے ایک اجلاس کے دوران جب افغان صدر اشرف غنی نے پاکستان پر الزام عائد کیا تو وزیراعظم عمران خان نے اِس الزام کو فورا مسترد کیا۔ اِس سے ایک روز قبل افغانستان کی خفیہ ایجنسی این ڈی ایس کے سابق سربراہ اور ملک کے نائب صدر امراللہ صالح نے بھی پاکستان پر الزام عائد کیا۔ تاہم پاکستان کے دفتر خارجہ نے کہا کہ ’افغانستان کے بعض حکام دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کو خراب کرنے کیلئے جھوٹ پر مبنی بیانات جاری کر رہے ہیں حالانکہ پاکستان نے کل ہی سپین بولدک پر طالبان کے حملے کے دوران وہاں سے فرار ہو کر پاکستان پہنچنے والے چالیس افسروں اور اہلکاروں کو واپس افغانستان پہنچایا ہے۔پاکستان اور افغانستان کے درمیان بداعتمادی کی اِس فضا اور ماحول میں وسطی جنوبی ایشیائی رابطہ کانفرنس جاری ہے جس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے افغان صدر کو واشگاف الفاظ میں اُن غلطیوں کی جانب متوجہ کیا جو اُن سے اور افغانستان کی سیاسی قیادت سے سرزد ہوئی ہیں اور جن غلطیوں کے باعث افغانستان ایک مرتبہ پھر خانہ جنگی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے صدر اشرف غنی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’جب پاکستان کہہ رہا تھا کہ طالبان سے بات چیت کریں تو اس وقت ایسا نہیں کیا گیا اوراب جب طالبان فتح کے قریب پہنچ چکے ہیں تو بات چیت کی باتیں کی جا رہی ہیں۔‘ بعدازاں تاشقند کانفرنس میں شریک جنرل فیض حمید نے ذرائع ابلاغ سے غیر رسمی بات چیت میں کہا کہ ”پاکستان افغانستان میں کسی دھڑے کی حمایت نہیں کر رہا اور چاہتا ہے کہ فریقین ایک دوسرے کے ساتھ بات چیت کرکے مسئلے کا حل نکالیں۔“ پاک افغان سرحدی علاقوں کی صورتحال اور وہاں پیش آنے والے واقعات و محرکات کو دیکھا جائے تو پاکستان کی طرف سے نہیں بلکہ افغانستان کی طرف سے پاکستان میں دراندازی ہو رہی ہے‘ جسے روکنے کیلئے پاکستان کی فوج پہلے ہی اُس قبائلی پٹی میں موجود ہے‘ جہاں ایک وقت میں ملکی و غیرملکی عسکریت پسندوں نے اپنے تربیتی مراکز اور قیام گاہیں بنا رکھی تھیں۔ افغانستان کو چاہئے کہ وہ داخلی امن و امان کیلئے پاکستان کی حکمت عملی کا جائزہ لے جس میں داخلی خطرات اور چیلنجز سے نمٹنے پر توجہ دی گئی ہے اور اگرچہ افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف دہشت گرد کاروائیوں کے لئے اِستعمال ہوتی رہی ہے لیکن پاکستان نے اپنی توانائیاں اور توجہات احتجاج کرنے کی بجائے داخلی حفاظتی انتظامات بہتر بنانے پر مرکوز کیں اور یہی کامیاب حکمت ِعملی ثابت ہوئی ہے۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: ڈاکٹر دیامیر خان۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)