افغانستان: غیریقینی صورتحال۔۔۔۔

افغانستان میں جنگ کا اختتام نہیں ہوا بلکہ جنگ نے ایک نئی شکل و صورت اختیار کر لی ہے۔ امریکہ اور اِس کے اتحادی ممالک اپنی اپنی فوجوں کا انخلا ہر دن مکمل کر رہے ہیں لیکن اِس سے افغانستان میں جاری جنگ میں کمی نہیں بلکہ شدت آ رہی ہے۔ پچیس جون تک امریکہ کا جنگی بحری بیڑا ’رونالڈ ریگن‘ شمالی بحیرہئ ہند میں موجود تھا۔ جوہری توانائی سے چلنے والے اِس بحری بیڑے میں جدید ترین اور مہلک ترین ہتھیار اور طیارے موجود ہیں۔ اِسی طرح دو دیگر بحری بیڑے بھی بحیرہئ عرب میں موجود ہیں۔ اگر ’یو ایس ایس رونالڈ ریگن‘ نامی بحری بیڑے کی بات کریں تو یہ ہوا سے ہوا میں حملہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ دشمن کے حملے کو روک سکتا ہے اور تباہی پھیلانے کی بھی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ بیڑا اپنی طرف آنے والے میزائلوں کو ہوا میں تباہ کر سکتا ہے اور اِس کی موجودگی کا مطلب خطے میں امریکہ کی ہوائی بالادستی ہے کیونکہ یہ نہ صرف زمینی اور فضائی اہداف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے بلکہ سمندر کے اوپر اور سمندر کے پانیوں کے نیچے بھی کسی ہدف کو تباہ کر سکتا ہے اور اِس مقصد کیلئے اِس میں حساس الیکٹرانک آلات نصب ہیں چونکہ یہ جوہری صلاحیت سے لیس ہے اور اِسے 4 نیوکلیئر ریکٹرز سے توانائی ملتی ہے اِس لئے اِس کا ایندھن کبھی بھی ختم نہیں ہوتا اور یہ لمبے عرصے تک جوہری صلاحیت کے بل بوتے پر رواں دواں رہ سکتا ہے۔امریکی افواج کا افغانستان سے انخلأ قدرے جلدی میں ہو رہا ہے اور اپنے پیچھے ایک اقتدار کا خلا چھوڑے جا رہا ہے یعنی افغانستان میں کوئی ایک ایسی قوت نہیں جو وہاں کی حکومت سنبھال سکے اور جسے وہاں کی عوام و جملہ سیاسی جماعتوں کا اعتماد حاصل ہو۔ اِس صورتحال میں کیا چین افغانستان میں موجود خلا کو پُر کرنے کی کوشش کرے گا؟ چین کے پاس بھی امریکہ کی طرح جدید فوجی طاقت ہے لیکن اُس کی طاقت امریکہ کی طرح اعلانیہ نہیں اور نہ ہی چین امریکہ کی طرح دنیا پر اپنے ہتھیاروں کا رعب و دبدبہ قائم کر سکا ہے۔ چین حقیقت میں ایک عظیم فوجی اور معاشی طاقت ہے لیکن اِس نے فوجی طاقت کی طرح اپنی معاشی طاقت کو بھی خاطرخواہ نمایاں نہیں کیا جیسا کہ امریکہ نے کر رکھا ہے کہ اُس نے ورلڈ بینک‘ ایشین ڈویلپمنٹ بینک اور عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے ذریعے پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔ اگر تو چین افغانستان میں موجود خلأ کو پُر کرنے کے بارے میں سوچ رہا ہے تو یہ وقت ایسی کسی مہم جوئی کی بجائے چین کے لئے اپنی دفاعی و اقتصادی قوت کے بل بوتے پر دنیا میں اپنا اثرورسوخ بڑھانا ہے۔افغانستان کی صورتحال کی وجہ سے پاکستان دو طرفہ مشکل میں گرفتار ہے۔ اگر افغانستان میں خانہ جنگی ہوتی ہے تو اِس کا مطلب یہ ہوگا کہ پاکستان کی جانب بڑی تعداد میں مہاجرین نقل مکانی کریں گے اور مہاجرین کی نقل مکانی سے پاکستان میں امن و امان کی داخلی صورتحال بھی متاثر ہوگی۔ جب ہم افغان مہاجرین کی بات کر رہے ہوتے ہیں تو اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے ’یو این ایچ سی آر‘ کے مطابق حالیہ افغان خانہ جنگی سے قریب 3 لاکھ افراد مہاجرت کی زندگی اختیار کریں گے جبکہ انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائیگریشن (IOM) کا کہنا ہے کہ 40 لاکھ افغانی نقل مکانی کریں گے۔ خانہ جنگی کا مطلب اقتصادی دباؤ بھی ہوتا ہے اور یہ دباؤ ایک ایسے وقت میں ہوتا ہے جبکہ ملک کی اقتصادی صورتحال اِس حالت میں نہیں ہوتی کہ وہ فلاحی کام کر سکے۔ پاکستان پر افغانستان کے داخلی حالات کا براہ راست اثر ہوتا ہے‘پاکستان کے سر پر فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (FATF) کی تلوار لٹک رہی ہے جس نے مشکوک ممالک کی فہرست میں پاکستان کو شامل کر رکھا ہے اور ایسی ہی پابندیاں یورپ و برطانیہ کی جانب سے کورونا وبا کے باعث عائد ہیں۔ اِس صورتحال میں جبکہ پاکستان کی آمدنی کم اور اخراجات زیادہ ہیں۔ پاکستان کی درآمدات زیادہ اور برآمدات کم ہیں اور پاکستان کو ہرسال قریب29 ارب ڈالر جاری اخراجات (درآمدات) کیلئے درکار ہوتے ہیں! (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)