بھارت: مذہبی فسطائیت 

بھارت کے معروف فلمی ستارے شاہ رخ خان کے جوانسال بیٹے آریان خان کو منشیات کے استعمال اور نشہ آور مواد رکھنے کے الزام پر 3 اکتوبر کے روز گرفتار کیا گیا اور 26 دن زیرحراست رہنے کے اُن کی ضمانت ہوئی۔ بھارتی فلم سٹار شاہ رخ خان کے تیئس سالہ بیٹے کو ممبئی کے قریب ایک کروز شپ سے گرفتار کیا گیا تھا۔ ان کے ساتھ دو دوست بھی گرفتار ہوئے اور ان پر بھی ریو پارٹی میں شرکت کا الزام عائد کیا گیا۔ آریان کے پاس سے منشیات برآمد نہیں ہوئیں اور نہ ہی اس بات کا کوئی ثبوت ہے کہ انہوں نے منشیات استعمال کیں۔ یہ ایک ایسی صورتحال ہے جس سے استغاثہ کو نمٹنا ہوگا۔ ناقدین کہتے ہیں کہ آریان کی گرفتاری دراصل دہلی حکومت کی جانب سے بھارتی فلم انڈسٹری میں ہندوتوا نظریات کی رہی سہی مخالفت ختم کرنے کی ایک کوشش ہے۔ وہ آریان کے تجربے کو لبرل سیکولر فلم سازوں پر ہونے والے حالیہ حملوں سے تشبیہہ دیتے ہیں۔ اس کام کیلئے وہ منشیات اور مالیات سے متعلق سرکاری اداروں کا استعمال کرتے ہوئے اختلاف ِرائے رکھنے والوں کو ہراساں کرتے ہیں۔ اس صورتحال کا موازنہ امریکہ کے میک کارتھی دور سے کیا جارہا ہے جس میں میڈیا اور ہولی وڈ کو کمیونزم سے مبینہ تعلقات کے حوالے سے الزامات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ تو کیا آریان بھی اپنی چھبیس روزہ قید کے تجربے کو ایک تشکیل پاتی پولیس سٹیٹ کی صورت میں دیکھیں گے؟ کیا لبرل سیکولر والدین کے بیٹے کیلئے بھارت  پر غالب آتی ہندوتواکے خلاف کھڑے مزاحمت کاروں کے حوالے سے بات کرنے کا وقت آ نہیں گیا؟ یہ مزاحمت کار بھی وہ ہیں جن کی قیادت عام آدمی‘ کسان‘ مزدور‘ مقامی افراد‘ اساتذہ‘ اقلیتیں‘ خواتین کے گروہ‘ کچھ آزاد صحافی اور فلمی صنعت سے وابستہ کچھ افراد کر رہے ہیں۔ اگر آریان ایک محفوظ دائرے سے باہر نکلتے ہیں اور انہیں ایسا کرنا بھی چاہئے‘ تو انہیں اپنے والد کو بھی تلقین کرنی ہو گی کہ وہ سیکولر بھارتی جمہوریت کو لاحق خطرات کے خلاف اپنی غیر ضروری خاموشی ترک کریں۔ شاید وہ دونوں یہ دیکھ سکیں کہ جہاں بھارتی جمہوریت کے کچھ حصے مکمل اختیارات کے ساتھ کام کر رہے ہیں وہیں کچھ جگہوں پر ایسا کرنے میں مشکل پیش آرہی ہے۔ آریان کی درخواست ضمانت دو ذیلی عدالتوں سے منسوخ ہوچکی تھی اور پھر بمبئی ہائی کورٹ سے انہیں ضمانت ملی۔ نوجوان آریان کو اس بات کا بھی احساس ہوگا کہ انہیں کسی نہ کسی صورت میں جو انصاف حاصل ہوا ہے۔ دیگر لوگوں کیلئے اس کا حصول بھی بہت مشکل ہوتا ہے۔ ایک مخالف ریاست کے خلاف مقدمے کی شفاف پیروی تو دور کی بات ہے بعض اوقات تو انہیں کسی وکیل کی خدمات تک حاصل نہیں ہوتیں۔ شاید ان کے خاندان کو آگرہ کے ان تین کشمیری طلبہ سے کچھ دلچسپی ہو جنہیں گزشتہ ہفتے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں بھارت کے خلاف پاکستان کی فتح کے بعد مبینہ طور پر پاکستانی جیت کا جشن منانے پر گرفتار کیا گیا۔ ان طلبہ پر بغاوت کا مقدمہ کیا گیا ہے۔ جی ہاں ایک کرکٹ ٹیم کی حوصلہ افزائی کرنے پر بغاوت کا مقدمہ۔ اگر پاکستانی کھلاڑی بھارتی شائقین کیلئے اتنے ہی ناپسندیدہ ہیں تو سوال اٹھتا ہے کہ پھر بھارتی اخبارات بھارتی کپتان کی جانب سے مخالف ٹیم کے بلے باز کو گلے لگانے کی تصویر کو کیوں سراہ رہے ہیں؟ خاص طور پر اس وقت جب مخالف ٹیم نے بھارت کے خلاف ایک بہترین فتح حاصل کی ہے۔ اطلاعات کے مطابق آگرہ کے وکیلوں کی انجمن نے بھی عدالت میں ان طلبہ کا مقدمہ لڑنے سے انکار کردیا ہے (ماضی میں کشمیر میں مسلم وکیل بھی اقلیتوں کے ساتھ ایسا کرتے رہے ہیں)۔ بلآخر ایک برہمن ایڈووکیٹ ان طلبہ کیلئے میدان میں آیا۔ پھر ڈاکٹر کفیل خان نے ایسا کون سا کام کیا تھا جس کی وجہ سے انہیں جیل میں ڈال دیا گیا؟ انہوں نے دو ننھے بچوں کیلئے اس وقت آکسیجن کا ہی تو بندوبست کیا تھا جس وقت اس سرکاری ہسپتال میں جہاں وہ کام کرتے تھے آکسیجن ختم ہورہی تھی آریان کو اس حوالے سے ضرور سوچ بچار کرنا چاہئے کہ خاموش رہنا درست ہے یا پھر روز بروز بڑھتی ہوئی پرامن مزاحمت کا ساتھ دینا درست ہے۔ شاید آریان کی نظریں عمر خالد پر بھی پڑیں گی جو انہی کی طرح ایک سابق طالب علم ہیں۔ عمر خالد نے شہریت کے نئے قانون کے خلاف ایک پرامن احتجاج کی کال دی تھی۔ پولیس نے ان پر دہلی میں فرقہ وارانہ فسادات شروع کروانے کا الزام لگایا۔ وہ ایک سال سے زائد عرصے سے جیل میں ہیں۔ اگر آریان کو اپنے خلاف کیس میں کچھ غلط محسوس ہوتا ہے جو ہونا بھی چاہئے تو انہیں چاہئے کہ ان مضحکہ خیز اقدامات پر بھی غور کریں جن کا استعمال ایک جانبدار ریاست اپنے شہریوں کو قانون کے جال میں پھنسانے کیلئے کرتی ہے۔ دہلی پولیس نے گزشتہ سال چھ مارچ کو ایف آئی آر درج کی جس میں عمر خالد کی تقریر کا کوئی ذکر ہی نہیں تھا۔(بشکریہ: ڈان۔ تحریر: جاوید نقوی۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)