ٹروائیکا پلس: افغان حکومت کے خدوخال

دنیا کیلئے افغانستان معمہ بنا ہوا ہے‘ جہاں حکومت تو قائم ہوئی ہے لیکن دنیا اُسے تسلیم کرنے کے لئے حیل و حجت سے کام لے رہی ہے اور اِس موقع پر پاکستان و چین انتہائی کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں۔ پاکستان کی میزبانی میں افغانستان کے حوالے سے چین‘ امریکہ‘ روس اور میزبان ملک پر مشتمل ”ٹرائیکا پلس“ اجلاس میں افغانستان کی موجودہ اِنسانی اور معاشی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے عالمی برادری سے افغانستان کی معاونت کا مطالبہ کیا ہے۔ اسلام آباد میں منعقدہ اجلاس کے بعد ترجمان دفتر خارجہ کے جاری کردہ اعلامیہ کے مطابق متذکرہ چاروں ممالک کے نمائندوں نے افغانستان کی صورتحال پر تبادلہئ خیال کیا اور طالبان کے اعلیٰ عہدے داروں کے ساتھ غیر رسمی ملاقات بھی کی۔ اعلامیہ کے مطابق ٹرائیکا پلس کے نمائندوں نے افغانستان میں سنگین انسانی اور معاشی صورتحال پر گہری تشویش کا اظہار کیا اور افغانستان کے عوام کی مدد کا اعادہ کیا۔ اجلاس میں افغانستان سے متعلق اقوام متحدہ کی مختلف قراردادوں کو دہرایا گیا جس میں افغانستان کی خودمختاری اور سرحدی آزادی شامل ہے۔ پاکستان کا دیرینہ مؤقف ہے کہ موجودہ افغانستان معاشی تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے۔ عالمی برادری اس وقت منجمد وسائل تک رسائی اور ہنگامی بنیادوں پر انسانی امداد کی فراہمی یقینی بنائے۔ عالمی برادری ماضی کی غلطیاں دہرانے سے بچے اور مثبت رویہ جاری رکھے۔ افغانستان میں امن و استحکام سب کا مشترکہ مفاد ہے۔ بیجنگ اجلاس میں طالبان کو بھی مدعو کیا جائے گا تاکہ ان کے تحفظات کو بھی سنا جا سکے۔ اس میں تو اب کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں رہی کہ امریکہ اور دیگر نیٹو تنظیم کے رکن ممالک کی افواج اور شہریوں کا افغانستان سے مکمل انخلأ ہو چکا ہے۔ امریکی بیساکھیوں کے سہارے قائم اشرف غنی کی حکومت کا کوئی وجود نہیں رہا اور طالبان نے بیس سال بعد دوبارہ کابل کا اقتدار سنبھال لیا۔ نو ستمبر دوہزاراکیس وہ بدترین دن ہے جب امریکہ کے ورلڈ ٹریڈ سنٹر اور پنٹاگون پر فضائی خودکش حملے ہوئے جن میں امریکی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق تین ہزار سے زائد باشندے مارے گئے تھے۔ اس وقت کی امریکی بش انتظامیہ نے ان حملوں پر القاعدہ تنظیم کو موردالزام ٹھہرایا اور خود امریکی صدر بش نے القاعدہ کی آڑ میں  جنگ شروع کرنے کا اعلان کر دیا۔ اس میں عراق اور افغانستان کو نشانے پر رکھا گیا اور القاعدہ کے خلاف آپریشن کیلئے امریکہ اور دیگر نیٹو تنظیم کے اتحادی ممالک کے چار لاکھ کے قریب فوجی افغانستان میں داخل کر دیئے۔ اس وقت افغانستان میں طالبان حکومت قائم تھی جسے بزور ختم کر کے امریکہ کے زیر انتظام عبوری سیٹ اپ قائم کرایا گیا اور پھر امریکی بیساکھیوں کے سہارے حامد کرزئی کو اقتدار سونپ دیا گیا۔ اس کے ردعمل میں طالبان اور دوسرے افغان گروپوں نے نیٹو افواج کے خلاف گوریلا کاروائیوں کے ذریعے مزاحمت کا سلسلہ شروع کیا جو مسلسل بارہ برس تک جاری رہا اور اس دوران مزاحمت کاروں نے افغان دھرتی پر غیر ملکی فوجیوں کے پاؤں ٹکنے نہ دیئے۔ اگرچہ نیٹو فورسز نے زمینی اور فضائی حملوں کے ذریعے افغان سرزمین کو تورا بورا بناتے ہوئے اسے اجاڑا اور انسانی خون سے رنگین کیا مگر وہ جنگجوؤں پر کبھی حاوی نہ ہو سکے۔دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر امریکہ نے جو مہم جوئی کی اس کے نتیجے میں پاکستان کے اندر بھی خودکش حملوں اور دہشت گردی کی وارداتوں کا سلسلہ شروع  ہو جس کے نتیجہ میں پاکستان کو دس ہزار سکیورٹی اہلکاروں سمیت اپنے اَسی ہزار شہریوں کی جانوں اور دو ارب ڈالر سے زائد کا مالی نقصان اٹھانا پڑا۔ اس کے باوجود امریکہ پاکستان کے فرنٹ لائن اتحادی کے کردار سے مطمئن نہ ہوا اور ’ڈومور‘ کے تقاضے کرتے ہوئے اس پر خود بھی ڈرون حملوں کا سلسلہ شروع کر دیا جو درحقیقت پاکستان کی آزادی‘ خودمختاری اور سالمیت پر حملہ تھا۔ عمران خان نے اس وقت حزب اختلاف کے رہنما کی حیثیت سے پاکستان کے امریکی فرنٹ لائن اتحادی والے کردار کی مخالفت کی اور نیٹو گن شپ ہیلی کاپٹروں کے سلالہ چیک پوسٹ پر حملوں کے خلاف سخت احتجاج کرتے ہوئے شمالی علاقہ جات میں بھرپور ریلی نکالی جبکہ وزارت ِعظمیٰ کے منصب پر فائز ہونے کے بعد بھی انہوں نے امریکی فرنٹ لائن اتحادی والا کردار قبول نہ کیا۔ انہوں نے گزشتہ دنوں سپریم کورٹ کے روبرو بھی اور مختلف اجلاسوں میں خطاب کرتے ہوئے بھی یہی باور کرایا کہ پاکستان کو امریکی فرنٹ لائن اتحادی والا کردار قبول نہیں کرنا چاہئے تھا۔ اِسی تناظر میں پاکستان نے افغانستان میں امن کی بحالی کی کوششوں میں حصہ ڈالا اور امریکہ اور طالبان کے مابین امن مذاکرات کی راہ ہموار کی جس کے نتیجہ میں افغانستان سے امریکہ کے مکمل انخلأ کا شیڈول طے ہوا تاہم امریکہ نے طالبان کے ہاتھوں اٹھائے جانے والے اپنے نقصانات کے پیش نظر انخلأ میں جلد بازی کی اور اپنی کٹھ پتلی کابل حکومت کو طالبان کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جبکہ طالبان نے کابل کا رخ کیا تو انہیں افغان فوجوں کی مزاحمت کا بھی سامنا نہیں کرنا پڑا اور انہوں نے کابل کی جانب اپنی پیش قدمی کے چند ہی ہفتوں میں پورے افغانستان پر غلبہ حاصل کر لیا۔ طالبان کے غلبہ کی راہ اگرچہ امریکہ نے خود ہموار کی مگر طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کے معاملے میں ابھی تک امریکہ‘ یورپ اور دیگر ممالک پس و پیش سے کام لے رہے ہیں جبکہ بھارت افغانستان کو دوبارہ بدامنی کی جانب دھکیلنے کی سازشوں میں مصروف ہے تاکہ اسے پھر افغان سرزمین پاکستان کی سلامتی کے خلاف استعمال کرنے کا موقع مل سکے۔ اس مقصد کیلئے بھارت نے عالمی دہشت گرد تنظیم داعش کی سرپرستی کر کے اس کے ذریعے افغانستان اور پاکستان میں دہشت گردی کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ پاکستان اسی تناظر میں عالمی برادری کو باور کرا رہا ہے کہ علاقائی اور عالمی امن کا دارومدار افغانستان کے امن پر ہی ہے اس لئے افغانستان کو اقتصادی مسائل کی صورت میں سامنے آنے والے نئے بحران سے بچایا جائے اور عالمی برادری افغانستان کی ہرممکن معاونت کرے۔ پاکستان نے اس مقصد کے تحت ہی خطے کے دیگر ممالک کے ساتھ مشاورت کا سلسلہ بھی شروع کر رکھا ہے۔ ٹرائیکا پلس اجلاس کے بعد اب بیجنگ اجلاس کا انعقاد بھی پاکستان کی میزبانی میں ہی ہو گا۔ دنیا کو بہرحال طالبان حکومت کو حقیقت کے طور پر تسلیم کرتے ہوئے اس کی طرف تعاون کا ہاتھ بڑھانا چاہئے تاکہ افغان امن کے ذریعے علاقائی اور عالمی امن و استحکام کی ضمانت مل سکے۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: ڈاکٹر طاہر اشرف۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)