افغانستان: ثالثی کا کردار

افغانستان کے عبوری وزیرِ خارجہ امیر خان متقی نے اسلام آباد میں تھنک ٹینک ادارے کے زیراہتمام منعقدہ نشست سے خطاب کرتے ہوئے چند نہایت ہی اہم نکات کو بیان کیا جنہیں دنیا کو سمجھنا اور اِن پر غور کرنا چاہئے جیسا کہ اُنہوں نے کہا کہ افغانستان سے متعلق عالمی طاقتوں کو اپنے فیصلے مسلط کرنے سے گریز کرنا چاہئے اور جس طرح ماضی میں زور زبردستی کے حربے آزمائے لیکن وہ اگر بیس برس پہلے کارآمد ثابت نہ ہوئے تو ایسا ہونا اب بھی ممکن نہیں۔ افغانستان نے کبھی امریکی صدر جو بائیڈن کو نہیں کہا کہ وہ سابق صدر ٹرمپ کو اپنی کابینہ میں رکھے تو امریکہ افغانستان سے کس طرح اِس بات کی توقع رکھ سکتا ہے کہ اُس کے کہنے پر افغانستان میں کابینہ کی تشکیل ہونی چاہئے!؟ افغان خواتین سے متعلق ذرائع ابلاغ جو تاثر دے رہے ہیں وہ درست نہیں۔ یہ خیالات اُن کی بات چیت پر مبنی تفصیلی خطاب (لیکچر سیریز) کا حصہ تھے۔ امیر خان متقی افغان طالبان کے وفد کے ساتھ پاکستان کے تین روزہ دورے (دس سے بارہ نومبر) پاکستان آئے اور اِس دوران انہوں نے پاکستان کے ہم منصب وزیرِ خارجہ سے ملاقات کے علاؤہ اور ٹرائیکا پلس کے نمائندہ ممالک (چین‘ روس اور امریکہ) کے نمائندہ ملاقات و بات چیت بھی کی۔ پندرہ اگست سے طالبان افغان دارالحکومت کابل پر حکومت قائم کر چکے ہیں جس کے بعد کسی بھی طالبان حکومتی نمائندے کا یہ پہلا سرکاری دورہ تھا جبکہ پاکستان کیلئے افغان طالبان کے وفد سے علیحدہ بات چیت اور ٹرائکا پلس کا سیشن منعقد کرنا ایک الگ سے اہم (قابل ذکر) کامیابی ہے۔ پاکستان نے اب تک افغان طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا ہے لیکن اس کے باوجود طالبان نے پاکستان کے مختلف شہروں جیسا کہ لاہور‘ کراچی‘ کوئٹہ اور اسلام آباد میں افغان قونصل خانوں کا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔ اس کے علاؤہ پاکستان کے دفترِ خارجہ سے جاری ہونے والے مراسلوں میں افغان طالبان کے وفود کو بطور سرکاری وفد قبول کرنے کے ساتھ ان کا استقبال بھی اسی طرز کا کیا گیا۔رواں سال ستمبر میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کو ریکارڈ کئے گئے پیغام میں وزیرِ اعظم عمران خان نے کہا تھا کہ عالمی برادری کو افغان طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنا چاہئے اور یہ کہ طالبان کو علیحدہ کرنے سے معاملات کا حل نہیں نکلے گا۔پاکستان کے نکتہئ نظر سے طالبان حکومت کو جلدازجلد عالمی سطح پر قبول ہونا چاہئے کیونکہ افغانستان کے حالات کا براہ راست پاکستان پر مرتب ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ پاکستان دونوں طرف سے کوششوں میں مصروف ہے۔ وہ افغان طالبان کی بھی منتیں کر رہے ہیں کہ وہ شراکت داری پر مبنی حکومت بنائیں اور جو دنیا بھر کے ممالک کے مطالبات ہیں‘ ان پر بھی پورا اتریں اور افغانستان چاہتا ہے کہ اُس پر بلاوجہ دباؤ ڈالنے کی بجائے افغانستان میں ’اپنی مرضی سے حکومت بنانے کی اجازت دی جائے اور افغانستان حکومت اِس مؤقف کو پوری دنیا کے سامنے رکھ رہی ہے۔ افغانستان کے نکتہئ نظر سے جو ایک بات سمجھنے لائق ہے وہ یہ ہے کہ نئی ریاست قائم نہیں ہو رہی بلکہ یہ افغانستان میں نئی حکومت کا قیام ہے۔ طالبان ایک ایسی افغان حکومت چاہتے ہیں جس کا آئین اور قانون ظاہر شاہ کی حکومت کے طرز کا ہو۔اُنیس سو نوے کی دہائی میں پاکستان نے نہ صرف طالبان کی حکومت کو قبول کیا تھا بلکہ پاکستان پر بارہا یہ الزام لگتا رہا کہ وہ افغانستان میں دانستہ طور پر طالبان کی مدد کر رہا ہے۔ اس کی وجہ سے افغانستان کو کئی ممالک پاکستان کا ’سٹریٹیجک گراؤنڈ‘ بھی سمجھتے رہے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے پالیسی ساز اس وقت طالبان کو بات چیت کے ذریعے مصروف رکھنے اور اصلاح کی طرف لے جانا چاہتے ہیں تاکہ طالبان ایک بار پھر افغانستان میں کی گئی سختیوں کو نہ دہرائیں کیونکہ ایسا کرنے پر پاکستان بھی متاثر ہوگا اور دیگر ممالک کا الزام بھی اِس کے سر آئے گا۔ اگر ماضی کے افغان حالات و واقعات کا جائزہ لیا جائے تو افغانستان میں اشرف غنی کی حکومت پاکستان مخالف رہی رہے اور ایک لمبے عرصے تک افغانستان میں پاکستان مخالف جذبات عام تھے جن کی بازگشت آج بھی سنی اور محسوس کی جا سکتی ہے۔ پاکستان افغان حکومت اور دنیا کے درمیان ثالث کا کردار ادا کرتے ہوئے یہ نکتہئ رکھتا ہے جو خود پاکستان کے بھی مفاد میں ہے کیونکہ افغانستان میں عالمی تسلیم شدہ حکومت کے قیام سے پاکستان مخالف جذبات اور افغان عوام کی مشکلات میں نمایاں کمی آئے گی اور یہی وقت کی ضرورت ہے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر رضی آفریدی۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)