مہنگائی صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ عالمی مسئلہ ہے لیکن ہر ملک میں اِس کے محرکات اور اِس سے نمٹنے کی حکمت عملیاں مختلف وضع کی گئی ہیں تاکہ اِس کے منفی اثرات سے عوام کو زیادہ سے زیادہ محفوظ رکھا جا سکے۔ عالمی سطح پر مہنگائی کی مجموعی اور اوسط شرح 3.2 فیصد ہے جبکہ پاکستان میں مہنگائی کی شرح اوسطاً 9 فیصد ہے۔ اشیائے خوردونوش کی قیمتوں پر نظر رکھنے والے ایک وفاقی ادارہ برائے شماریات کے مطابق 51 اشیائے ضروریہ کی قیمتیں 17مختلف شہروں کی 50 مارکیٹوں سے جمع کی گئیں جن سے متعلق ہوا کہ مہنگائی کی شرح 17.37 فیصد جیسی بلند شرح پر ہے۔مہنگائی کا منفی اثر اِس لئے بھی زیادہ محسوس ہوتا ہے کیونکہ پاکستان میں عام آدمی کی قوت خرید کم ہے۔ عالمی سطح پر ہر ملک کی خام پیداواری صلاحیت (GDP) کے تناسب سے قومی اوسط آمدنی 11 ہزار 339 ڈالر سالانہ لگائی گئی ہے جبکہ پاکستان میں خام قومی پیداوار میں ہر شخص کی سالانہ آمدنی 1 ہزار 193 ڈالر ہے۔ اِس لحاظ سے پاکستان میں مہنگائی کی شرح کا اگر عالمی سطح پر مہنگائی سے موازنہ کیا جائے تو یہ دنیا سے 200 فیصد زیادہ ہے اور یہ اقتصادی پہلو بھی ذہن نشین رہے کہ پاکستان کی خام قومی پیداوار عالمی تناسب سے 10فیصد کم ہے!پاکستان میں عوام کی اوسط آمدنی 16 ہزار روپے ماہانہ ہے۔ ہر پاکستانی اوسطاً 125 کلوگرام آٹا استعمال کرتا ہے جس کی موجودہ قیمت ِفروخت 75 روپے فی کلوگرام ہے اور اِس قیمت میں گزشتہ 3 برس کے دوران 100 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اِسی طرح ایک اوسط پاکستانی سالانہ 25 کلوگرام چینی استعمال کرتا ہے اور چینی کی موجودہ قیمت ِفروخت 160 روپے فی کلوگرام ہے۔ جو گزشتہ 3 برس میں 200 فیصد بڑھی ہے۔ پاکستان میں ہر شخص اوسطاً 450 کلوواٹ بجلی استعمال کرتا ہے اور بجلی کی فی یونٹ قیمت 11 روپے سے بڑھ کر 23 روپے ہو چکی ہے۔ مذکورہ تینوں (گندم چینی اور بجلی) ضروری استعمال کی اشیاء ہیں اور تصور کیا جا سکتا ہے کہ اگر اِن اشیاء کی قیمتوں میں 100 سے 300 فیصد اضافہ ہوا ہے تو کتنے پاکستانی ہوں گے جو اِن اشیاء کو خریدنے کی سکت کھو چکے ہیں!حکومت کا مہنگائی سے متعلق مؤقف یہ ہے کہ دنیا بھر مہنگائی ہوئی ہے اور یہ بات بڑی حد تک درست بھی ہے کہ دنیا بھر میں اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں بالخصوص اضافہ ہوا ہے اور یہ تاریخ کی بلند ترین سطح پرہیں۔ مثال کے طور پر ریاست ہائے متحدہ امریکہ (USA) میں اشیائے خوردونوش کی قیمتوں گزشتہ سال کے مقابلے میں 4.6 فیصد زیادہ ہیں لیکن پاکستان میں ایک سال کے دوران اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں 17.37 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ یہ بات ذہن نشین رہنی چاہئے کہ اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں اضافے سے عوام کے سبھی طبقات یکساں متاثر نہیں ہوتے بلکہ کچھ زیادہ‘ کچھ انتہائی زیادہ اور کچھ معمولی متاثر ہوتے ہیں۔ پاکستان جیسے ملک میں کہ جہاں عوام کی اکثریت کی آمدنی کے ذرائع مستقل نہیں اور یہ آمدنی کم بھی ہے تو اگر وہاں مہنگائی کی شرح سترہ فیصد سے زیادہ ہو گئی ہے تو اِس سے ملک کی اکثریت کے لئے کم آمدنی جو کہ اوسطاً سولہ ہزار روپے ماہانہ کے اندر رہتے ہوئے کنبے کی کفالت ممکن نہیں۔ ایک اوسط امریکی اشیائے خوردونوش کی خریداری پر اپنی کلک آمدنی کا 6.5 فیصد حصہ خرچ کرتا ہے جبکہ پاکستان میں کل آمدنی کا 41.4 فیصد اشیائے خوردونوش کی خریداری کی نذر ہو رہا ہے یعنی اگر کسی شخص کے پاس 100 روپے ہوں تو اُسے ہر ایک سو روپے میں سے اوسطاً 41 روپے اشیائے خوردونوش پر خرچ کرنا پڑ رہے ہیں۔ جب ہم اکیس کروڑ آبادی کے پاکستان کا ذکر کر رہے ہوتے ہیں تو غذائی عدم تحفظ کا شکار عوام کی تعداد 9 کروڑ 70 لاکھ بتائی جاتی ہے جو انتہائی بلند یعنی تشویشناک حد تک زیادہ ہے۔ ایشین ڈویلپمنٹ بینک (ADB) کے مرتب کردہ اعدادوشمار کے مطابق جب کسی ملک میں اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں ایک فیصد اضافہ ہوتا ہے تو وہاں بچوں کی اموات میں 0.3 فیصد اضافہ ہوتا ہے اور وہاں بچوں میں پائے جانے والے لاغر پن میں 0.5 فیصد اضافہ ہو جاتا ہے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)