ادارہئ شماریات (بیورو آف سٹیٹسٹکس) نے پانچ نومبر کو اپنی روزمرہ استعمال کی اشیا کی قیمتوں کے جائزے سے متعلق ایک فہرست جاری کی جس میں چینی کی قیمتوں میں 5.32فیصد‘ ٹماٹر کی قیمتوں میں 19.23فیصد‘ سرسوں کے تیل میں 3.74فیصد‘ چاول کی قیمتوں میں 1.28فیصد اور مائع گیس (ایل پی جی) کی قیمتوں میں 1.28فیصد اضافہ دیکھا گیا۔ 1.73فیصد مجموعی طور پر ہفتہ وار قیمتوں میں اضافہ ہوا۔ درحقیقت یہ اعدادوشمار مختلف اوزان والی اشیا کی نشاندہی کرتا ہے۔ کم اور زیادہ وزن والی اشیا جیسا کہ دودھ (17.5پوائنٹس)‘ آٹا (6.2پوائنٹس)‘ چینی (5.2پوائنٹس)‘ سبزی گھی (3.3پوائنٹس) اور بجلی (8.4پوائنٹس) اِس میں شامل ہیں۔ حکومت نے ایک بار پھر ’ایل پی جی‘ قیمتوں میں بھی تیرہ روپے فی کلو جیسا غیرمعمولی اضافہ کیا ہے۔ حکومت اگر مہنگائی کی شرح کم کرنا یا مزید بڑھنے سے روکنا چاہتی ہے تو اُسے بجلی و گیس اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کو لمبے عرصے تک ایک ہی سطح پر رکھنا ہوگا۔حکومت کی اقتصادی و معاشی اصلاحات اپنی جگہ اہم ہیں۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان کو مکمل خود مختاری دینے کیلئے حکومت پر آئی ایم ایف کا دباؤ الگ موضوع ہے۔ تجزیہ کار ایک عرصے سے اِس بات پر زور دے رہے ہیں کہ مثالی مالیاتی (مانیٹری) پالیسی فریم ورک پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کیونکہ یہی حکمت عملی کسی بھی ملک میں مستحکم اقتصادی ترقی اور ترقی کے عمل کو یقینی بناتا ہے۔ مانیٹری پالیسی ٹولز کا استعمال سرمایہ کاری کو بڑھانے‘ افراط زر کو کنٹرول کرنے‘ پالیسی ریٹ کے ذریعے قیمتوں کے استحکام اور صنعت کاروں یا برآمد کنندگان کو فنانسنگ یا ری فنانسنگ کی سہولیات فراہم کرتا ہے۔ قیمتوں کو مستحکم رکھنے‘ برآمدات بڑھانے اور پیداواری صلاحیت میں بھی ترقی ضروری ہے جسے یقینی بنانے کیلئے سرمایہ کاری کیلئے سازگار ماحول پیدا کرنے کیلئے بہت سے آلات کو احتیاط سے استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت کو برآمدات میں اضافے کیلئے حکمت عملی پر زیادہ توجہ دینی چاہئے جو روزگار کے ساتھ اور عوام کی قوت خرید میں اضافے کا باعث ہوگا اور اِس سے مہنگائی کے منفی اثرات کم ہوتے چلے جائیں گے۔ یہ بات الگ سے تشویشناک ہے کہ پاکستانی روپے کی قدر میں کمی ہو رہی ہے اور اطلاعات کے مطابق ایسا آئی ایم ایف کے مطالبے کیا جا رہا ہے جس کی ایک صورت شرح سود میں اضافہ بھی ہوگا۔ جس کی وجہ سے مستقبل قریب میں مزید افراط زر جیسے مسائل پیدا ہوں گے۔ اگر حکومت شرح سود میں اضافہ کرتی ہے تو اِس سے سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی ہوگی اور برآمدات میں کوئی خاص بہتری نہیں آئے گی۔ حکومتی اقتصادی پالیسی اِس لحاظ سے تو کامیاب ہے کہ اِس کی وجہ سے درآمدات میں معمولی کمی ہوئی لیکن جبکہ انتہائی ضروری شرح نمو پر سمجھوتہ کیا گیا ہے۔ پالیسی سازوں کو مہنگائی کے دباؤ پر غور کرنے کی ضرورت ہے جو مختصر‘ درمیانی اور طویل مدتی معاشی استحکام کو متاثر کر رہے ہیں‘راقم الحروف کا ماننا ہے کہ آئی ایم ایف پروگرام کا محتاط سٹریٹجک جائزہ لینے کی ضرورت ہے کیونکہ اس کی وجہ سے معاشی استحکام متاثر ہو رہا ہے لیکن ہمیں اپنی معاشی پریشانیوں اور مشکلات سے نمٹنے کیلئے متبادل حکمت عملی (پلان بی) بھی چاہئے‘ جس کیلئے اجتماعی اور جامع فیصلہ سازی کی ضرورت ہے اور ایسے معاملات طے کرنے کیلئے پارلیمنٹ بہترین فورم ہے۔ (مضمون نگار ماہر اقتصادیات ہیں۔ بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: حسن بیگ۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)
اشتہار
مقبول خبریں
حقائق کی تلاش
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
افغانستان: تجزیہ و علاج
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
جارحانہ ٹرمپ: حفظ ماتقدم اقدامات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
موسمیاتی تبدیلی: عالمی جنوب کی مالیاتی اقتصاد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
کشمیر کا مستقبل
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد پولیو جدوجہد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
درس و تدریس: انسانی سرمائے کی ترقی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد غربت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
مصنوعی ذہانت: عالمی حکمرانی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
شعبہ ئ تعلیم: اصلاحات و تصورات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام