قومی سیاست اور نتیجہ خیزی

پارلیمان کا مشترکہ اجلاس  اس وقت جاری ہے  تاکہ عام انتخابات میں الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں (EVMs) کے استعمال سے متعلق قانون سمیت دیگر قوانین بھی منظور کرائے جاسکیں۔ قانون سازی کی حمایت حاصل کرنے کیلئے وزیراعظم عمران خان نے پندرہ نومبر کو حکومتی اتحادیوں‘ متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) اور پاکستان مسلم لیگ (پی ایم ایل قاف) کا اجلاس طلب کیا تھا۔ جس میں اتحادیوں نے ’الیکٹرانک ووٹنگ (ای وی ایمز)‘ اور نوے لاکھ سے زائد سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹنگ کا حق دینے سے متعلق قوانین کے بارے  مؤقف کا اظہار کیا تھا حکومت پراُمید ہے کہ انہیں قوانین کے حق میں حمایت مل جائے گی۔ حکومت کی جانب سے ذرائع ابلاغ کو بتایا گیا ہے کہ اتحادی جماعتوں کے تحفظات دور کر دیئے گئے ہیں۔ جس کے جواب میں وہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں پیش کئے جانے والے تمام (آٹھ یا دس قوانین) کی حمایت کریں گے۔ اِس پوری صورتحال میں جبکہ حکومت اتحادیوں کو قریب لانے کی کوششیں کر رہی ہے تو دوسری طرف حزب اختلاف کی جماعتیں ایک مرتبہ پھر متحد نظر آتی ہیں۔ ملک میں ان دنوں سیاسی درجہ حرارت انتہا کو چھو رہا ہے۔ حزبِ اختلاف کی جماعتیں آپس میں اتحاد کر کے حکومت کے خلاف محاذ بنا رہی ہیں تو دوسری جانب تحریک انصاف کی اتحادی جماعتیں پاکستان مسلم لیگ (قائداعظم) اور متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) حکومت سے زیادہ خوش نہیں اور یہی وجہ ہے کہ اپنے سیاسی مستقبل سے متعلق اہم فیصلے کرنے کا سوچ رہی ہیں۔ یہ صورتحال حکومت  کسی حد تک زیادہ پریشان کن ہوسکتی ہے  دوسری طرف عوام کو بھی شکایات ہیں جس کی بنیادی وجہ وہ مہنگائی اور بے روزگاری ہے جس کی شرح میں ہر دن اضافہ ہو رہا ہے۔ حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے مہنگائی اور بے روزگاری کی بنیاد پر حکومت کے احتجاج کا سلسلہ بھی شروع کر رکھا ہے اور ساتھ ہی ساتھ متحد ہو کر وہ حکومت کے خلاف حکمت ِعملی بھی تشکیل دے رہی ہیں۔ متحدہ حزب اختلاف نے حکومت کو انتخابی اصلاحات پر غور اور اتفاق رائے پیدا کرنے کیلئے مسلم لیگ (نواز) کے دور حکومت میں بنائی گئی کمیٹی کی بنیاد پر پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے ممبران پر مشتمل پارلیمانی کمیٹی تشکیل دینے کی تجویز دی۔ حزب اختلاف کی سٹیئرنگ کمیٹی نے سپیکر کی جانب سے قائد حزب اختلاف شہباز شریف کو لکھے گئے خط پر تفصیلی غور کے بعد جوابی خط لکھا ہے۔ سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصرکو لکھے گئے جوابی خط میں کہا گیا ہے کہ پچیس جولائی دوہزارچودہ کو تشکیل کردہ پارلیمانی کمیٹی نے ایک سو سترہ اجلاسوں کے بعد متفقہ طورپر انتخابی اصلاحات منظور کیں۔ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں پر مشتمل کمیٹی انتخابی اصلاحات کے پورے پیکج کو زیرغور لائے اور انتخابات (ترمیمی) بلز2021ء سمیت انتخابی اصلاحات کا پیکج اتفاق رائے سے تیار کرے۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کو بھجوائے گئے بل کمیٹی برائے قانون سازی میں زیرغور لائے جائیں۔ اپوزیشن کی سٹیئرنگ کمیٹی نے الیکشن کمشن ممبران کی تقرری کیلئے پارلیمانی کمیٹی ارکان میں تبدیلی اور حکومت کی جانب سے ایم کیو ایم اور قاف لیگ کی کمیٹی میں نمائندگی ختم کرنے پر بھی شدید تحفظات کا اظہار کیا اور اس معاملے پر مسلم لیگ (قائداعظم) اور متحدہ قومی موومنٹ کے ساتھ بھی رابطہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ کمیٹی نے نیب سے متعلق آرڈیننس پر بھی تحفظات اظہار کیا اور اسے مسترد کردیا تاہم چودہ نومبر کے روز حزب اختلاف کی جانب سے الیکشن اصلاحات سمیت دیگر قانون سازی پر بنائی گئی سٹیئرنگ کمیٹی کا ورچوئل اجلاس ہوا جس میں مسلم لیگ (نواز)‘ پیپلزپارٹی اور جے یو آئی (فضل الرحمن) کے نمائندوں نے ویڈیو لنک کے ذریعے شرکت کی۔ پارلیمنٹ میں متحدہ اپوزیشن کی سٹیئرنگ کمیٹی کے اہم اجلاس میں سپیکر قومی اسمبلی کے قائد حزب اختلاف شہباز شریف کو لکھے گئے خط پر غور کیا اور جوابی خط میں کہا کہ سپیکرقومی اسمبلی نے تیئس جون دوہزاراکیس کو قانون سازی سے متعلق کمیٹی تشکیل دی تھی۔ کمیٹی نے دس جون کو قومی اسمبلی سے منظور کردہ اکیس قانونی مسودات پر غور کرنا تھا لیکن حکومت نے اکیس قانونی مسودات پر قانون سازی کیلئے طے شدہ طریقہ کار پر عمل نہیں کیا۔ جوابی خط میں مزید کہا گیا ہے کہ اس کمیٹی کا گزشتہ آٹھ ہفتوں میں ایک بھی اجلاس نہیں ہوا۔ حکومتی ارکان کے عدم تعاون کے باعث ضابطے سے متعلق دائرہ کار کی شرائط کار کو حتمی شکل نہ دی جا سکی۔ اس دوران مجوزہ مسودات کی قانونی مدت پوری ہوگئی یا پھر سینٹ نے انہیں مسترد کردیا۔یہ ایک حقیقت ہے کہ جولائی دوہزاراٹھارہ کے عام انتخابات میں تحریک انصاف کو جس عوامی مقبولیت کی بنیاد پر حکومت ملی تھی اُس میں مہنگائی کے سبب کمی آچکی ہے۔ حکومت اگر اپنی مقبولیت کو مزید گرنے سے روکنا چاہتی ہے تو اسے سنجیدگی سے مہنگائی جیسا بنیادی عوامی مسئلہ حل کرنے کیلئے کوششیں کرنا ہونگی۔(بشکریہ: ڈان۔ تحریر: ڈاکٹر رشید خان۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)