چین: جارحانہ سفارتکاری

عوامی جمہوریہ چین کی صنعتی ترقی ہی نہیں بلکہ عالمی سفارتکاری  کو بھی دنیا دلچسپی کی نظر سے دیکھتی ہے جس کا بنیادی اصول ڈینگ ژیاؤپنگ کی ’تاؤگوانگ یانگھوئی‘ (کم پروفائل رکھو یا خاموش رہو اور وقت کا انتظار کرو) نامی پالیسی سے لے کر موجودہ صدر شی جن پنگ کی بڑے ممالک کے ساتھ تعلقات سے متعلق ہے اور تجزیہ کار اِسے چین کی سفارت کاری کے حوالے سے ماضی کے مقابلے ایک نمایاں یا بڑی تبدیلی قرار دیتے ہیں۔ توجہ طلب ہے کہ بیرون ممالک میں چین کے سفیر متنازعہ مسائل پر بیجنگ کا دفاع کرنے اور اس کے عالمی مفادات کو آگے بڑھانے کیلئے سفارت کاری کا جارحانہ انداز اپنائے ہوئے ہیں‘ جس کی وجہ سے انہیں ’وولف واریئرز‘ بھی کہا جاتا ہے۔ ذہن نشین رہے کہ ”وولف واریئرز‘ سال دوہزارپندرہ میں ریلیز ہوئی ایک فلم کا نام تھا جو ایک محب وطن کردار کے عنوان سے بنائی گئی تھی اور تب سے ایک اصطلاح کے طور پر استعمال ہو رہی ہے۔ حقیقت ِحال یہ ہے کہ سفارتکاری کے کامیاب انداز کی بدولت اب چین کی خود مختاری‘ سلامتی اور ترقیاتی مفادات کو پائمال نہیں کیا جا سکتا۔ بین الاقوامی حالات میں تبدیلیاں اور ہماری اپنی طاقت میں تبدیلیاں دراصل سفارتی انداز میں تبدیلی کی بنیادی وجوہات ہیں۔ سفارت کار جو وزارت خارجہ میں پچاس کی دہائی میں جونیئر مترجم ہوا کرتے تھے اب چین کے عالمی مفادات کے پاسبان بن گئے ہیں۔ لائق توجہ ہے کہ چین کے بیرون ممالک تعینات سفیروں کی تعداد ایک سو چوراسی ہے اور اِن سفیروں میں چوبیس خواتین سفیر بھی شامل ہیں۔ مذکورہ 184 چینی سفارت کاروں میں اقوام متحدہ کی سیاسی اور اقتصادی یونینوں میں کام کرنے والا دستہ بھی شامل ہے جو ایک سو ساٹھ مردوں اور چوبیس خواتین پر مشتمل ہے۔ تمام چینی سفارت کاروں کے پاس بیچلر ڈگریاں ہیں۔ دو کے پاس ڈبل بیچلر ڈگریاں جبکہ دو کے پاس غیر چینی یونیورسٹیوں سے بیچلر ڈگریاں ہیں۔ بیالیس چینی سفارتکاروں کے پاس ماسٹرز ڈگریاں ہیں۔ ایک کے پاس ڈبل ماسٹر ڈگری ہے۔ سات نے غیر چینی یونیورسٹیوں میں اپنی ماسٹرز ڈگریوں کیلئے تعلیم حاصل کر رکھی ہے اور چھ کے پاس ڈاکٹریٹ کی ڈگریاں ہیں۔ سفارت کاروں کے لئے سفیر کی سطح تک پہنچنے کی درمیانی عمر اکیاون سال مقرر ہے جبکہ چین کے فرانس میں سفیر لو شیے اکتالیس سال کی عمر میں سب سے کم عمر سفیر ہیں۔ چین کی وزارت خارجہ بھی نان کیریئر سفارکاروں کو بھرتی کیا جاتا ہے۔ سال دوہزار میں چین کی حکومت نے مرکزی اور مقامی حکومت سے امیدواروں کو تلاش کرنے کیلئے ایک پائلٹ پروگرام شروع کیا تھا۔ اُس پروگرام میں کامیاب امیدواروں میں سے کچھ سینئر سفارت کار بن گئے‘ جن میں چینی کمیونسٹ پارٹی (سی سی پی) کے بین الاقوامی رابطہ ڈیپارٹمنٹ کے موجودہ سربراہ سونگ تاؤ اور شمالی کوریا میں چین کے سفیر لی جن جن شامل ہیں۔ صدر شی کے دور میں سفارتکاری کی سروس میں براہ راست داخلے میں اضافہ ہوا ہے۔ سفیروں کی موجودہ لائن اپ میں سے نو ایسے سفارت کار ہیں جو کسی اور شعبے سے آئے ہیں۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بیجنگ مختلف پس منظر سے تعلق رکھنے والے باصلاحیت عہدیداروں کو سفارتکاروں کی فہرست میں شامل کر رہا ہے تاکہ بین الاقوامی سماجی اور اقتصادی تعلقات کو فروغ دیا جا سکے مثال کے طور پر‘تجارت اور کامرس کے ماہر نونگ رونگ کو چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پی ای سی) کی نگرانی کے بنیادی کردار کے ساتھ پاکستان میں سفیر کے طور پر تعینات کیا گیا۔ صدر شی جن پنگ کی دوسری مدت ِاقتدار کے دوران چینی کمیونسٹ پارٹی نے چینی خارجہ پالیسی میں اپنے کردار کو مضبوط بنایا ہے۔ دسمبر دوہزارسترہ میں صدر شی جن پنگ نے سفارت کاروں اور سفیروں کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہیں ”کیمونسٹ پارٹی کی مرکزی کمیٹی کے اختیارات اور مرکزی قیادت کو برقرار رکھنا چاہئے اور پارٹی کی خارجہ پالیسی کے رہنما اصولوں پر عمل درآمد کرنا چاہئے۔“ مارچ دوہزاراٹھارہ کی نیشنل پیپلز کانگریس میں بیجنگ نے خارجہ امور کا مرکزی کمیشن قائم کیا گیا تھا‘ جس نے سابق سینٹرل لیڈنگ سمال گروپ کی جگہ لی۔ اس اقدام کا مقصد خارجہ پالیسی کو سنبھالنے والے سرکاری اداروں پر کیمونسٹ پارٹی کے کنٹرول کو مستحکم کرنا تھا۔ مغربی ممالک کے برعکس‘ چین میں حکومتی اور پارٹی عہدوں کے درمیان کوئی واضح تقسیم نہیں ہے۔ ان عہدوں پر حکام کی تقرری ایک کے بعد ایک ہوتی رہتی ہے اور بعض اوقات تو یہ ایک ساتھ کی جاتی ہے۔ اپنی سابقہ سفارتی تقررریوں میں برطانیہ میں چین کے سفیر زینگ زیگوانگ نے نانجنگ شہر کے پارٹی لیڈرشپ گروپ کے ڈپٹی سیکرٹری اور نانجنگ میونسپل گورنمنٹ کے ڈپٹی میئر کے طور پر خدمات انجام دی تھیں۔ اس وقت ایک سو تراسی میں سے چوالیس چینی سفیر کیمونسٹ پارٹی کے مختلف عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں۔ اڑتالیس سفارتکاری سے قبل سرکاری ملازم تھے اور اکیس کے پاس سرکاری ملازمت اور کیمونسٹ پارٹی کے عہدے (یعنی دونوں تقرریاں) ہیں۔ عالمی سطح پر چین کی سوچ یہ دکھائی دے رہی ہے کہ اس کے بیرون ملک مقیم سفارت کار علاقائی اور دیگر امور میں مہارت رکھتے ہوں۔ انہیں ان ممالک میں تعینات کیا جائے جن کی زبان ایک جیسی ہو یا انہیں کسی مخصوص علاقائی بلاک میں تعینات کیا جائے۔ موجودہ ایک سو چوراسی سفیروں میں سے بیاسی نے اپنے پورے کیریئر میں کسی نہ کسی شعبے میں مہارت حاصل کر رکھی ہے۔ ان میں سے بارہ کی پوسٹنگ ایشیائی ممالک میں‘ سات کی دولت مشترکہ کے ممالک میں‘ پانچ کی انگریزی بولنے والے ممالک میں‘ پندرہ کی سابق سوویت کی ریاستوں اور سیٹلائٹ ریاستوں میں‘ بیس کی فرانسیسی بولنے والے ممالک میں‘ نو کی مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں‘ دو کی پرتگالی بولنے والے ممالک میں‘ دس ہسپانوی بولنے والے ممالک میں اور تین کی سب صحارا افریقہ میں تعیناتیاں ہوئی ہیں۔ چین امریکہ‘ برطانیہ‘ روس اور جاپان جیسے بڑے ممالک میں اپنے سفارت خانوں کو بہت اہمیت دیتا ہے۔ ان ممالک میں موجود چینی سفیر اپنے عہدے سنبھالنے سے پہلے ملک میں نائب وزیر کے طور پر خدمات انجام دے چکے ہیں۔ امریکہ‘ برطانیہ اور روس میں سابق سفیر بھی ملک میں نائب وزیر رہے تھے۔ اکثر چینی سفیروں کی مدت ملازمت قریب تین سال ہوتی تھی تاہم کچھ اہم ممالک میں چینی سفیر زیادہ دیر تک بھی اپنے عہدے پر تعینات رہے ہیں۔ برطانیہ میں چین کے سابق سفیر قریب گیارہ سال تعینات رہے۔ روس میں دس سال‘ جاپان میں چین کے سفیر نے نو سال اور امریکہ میں چین کے سفیر نے آٹھ سال خدمات سر انجام دیں۔ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ ان طویل مدتی پوسٹنگز کا مقصد سفیروں کو کثیر جہتی تعلقات کے لئے بہتر تفہیم فراہم کرنا ہے لیکن یہ اس بات کی طرف بھی اشارہ ہو سکتا ہے کہ بڑے ممالک کے ساتھ چین اپنے تعلقات بہتر بنانے کے لئے سفارتکاری پر زیادہ توجہ دے رہا ہے اور آنے والے برس میں چین اپنے سفارتی عملے کی تعداد میں اضافہ کرے گا‘ جو چین کے عزائم اور عالمی ترقی میں اِس کی شمولیت سے متعلق حکمت ِعملی کا عکاس ہے۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: ڈاکٹر رافع علوی۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)