بھارت میں مذہبی انتہا پسندی اور مذہبی بنیادوں پر نفرت بڑھ رہی ہے جس کی شدت میں رواں برس ہوئے ریاستی انتخابات کے بعد اضافہ ہوا ہے۔ بھارت کے لبرل عوام اِس صورتحال پر شرمسار ہیں اور اُن کے سر شرم سے جھکے ہوئے ہیں کیونکہ یہ کسی بھی طور انسانیت کی خدمت نہیں کہ ایک ایسی سیاست کی حمایت کی جائے جو ملک کو انتہاپسندی کی طرف دھکیل رہی ہے۔ حال ہی میں جب بھارت اور پاکستان کی کرکٹ ٹیموں کے درمیان مقابلہ ہوا تو ”راشٹریہ بجرنگ دل‘‘کے اراکین نے پاکستان کی فتح کا جشن منانے والوں کے خلاف احتجاج کیا اور کئی مقامات سے تشدد کی اطلاعات بھی ملیں مگر کیا بھارت کی نئی نسل اِس صورتحال سے مطمئن ہے اور وہ بھارت کو ایسا ہی دیکھنا چاہتی ہے؟ خودمختار سوشلسٹ سیکولر جمہوری مملکت کے وزیرِاعظم کی جانب سے ایسے واقعات پر کیا معافی نہیں مانگنی چاہئے کہ جنہوں نے ایک موقع پر کہا تھا کہ ”بھارت کے شہریت کے ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج میں حصہ لینے والوں کی شناخت ان کے کپڑوں سے ہی کی جاسکتی ہے؟“ کیا ہندوؤں کو بھارت کے ہر باسی کی طرف سے معافی نہیں مانگنی چاہئے جنہوں نے گزشتہ برس مسلمانوں کو کورونا وائرس کے پھیلاؤ کا ذمہ دار ٹھہرایا تھا اور پھر جب دوہزاراکیس میں کمبھ میلہ وائرس کے شدید پھیلاؤ کا باعث بنا تب ان کی سوچ کا زاویہ ہی بدل گیا؟ کیا ہمیں یونین وزیرِ داخلہ کی طرف سے معافی نہیں مانگنی چاہئے جنہوں نے بنگلہ دیشی مہاجرین کو ”دیمک‘‘پکارا تھا؟ کیا ہمیں اپنے ان’’دوستوں‘‘کی طرف سے معافی نہیں مانگنی چاہئے جو روزانہ واٹس ایپ گروپس میں مسلمانوں کے خلاف زہر اگلتے ہیں؟ کیا ہمیں اس پورے نظام کی طرف سے معافی نہیں مانگنی چاہئے جو مسلمانوں کو برملا انداز میں بُرا بھلا کہنے اور ان کی نسل کشی کا مطالبہ کرنے والے کٹر دائیں بازو والوں کو اس ملک میں آزادانہ طور پر گھومنے پھرنے کی اجازت دیتا ہے؟ اونچی ذات کا ہندو ہونے کے ناطے دوہزاراکیس کے بھارت میں مسلمان خاندان سے کوئی کتنی معافیاں مانگے گا؟ دراصل جب ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ میں پاکستان کے ہاتھوں بھارتی ٹیم کی بدترین شکست پر مبینہ طور پر جشن منانے والے بھارت کے ایک طبقے خصوصاً کشمیری مسلمانوں سے متعلق سوشل میڈیا پر غم و غصہ اور اس موضوع پر چند حلقوں کی جانب سے جاری عوامی مباحثہ دیکھا تو راقم الحروف کے ذہن میں کلکتے کے ایک واقعے کی یاد تازہ ہوگئی۔ پتا چلا ہے کہ کشمیر پولیس نے پاکستان کی فتح کا جشن منانے اور بھارت مخالف نعرے لگانے پر چند مقامی طلبہ کے خلاف مقدمہ درج کیا جبکہ راجستھان میں ایک معلمہ کو پاکستان کی جیت پر خوشی کا اظہار کرنے پر نوکری سے برخاست کردیا گیا۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ کسی بھی کھیل میں آپ کسی نہ کسی ٹیم کو سپورٹ کرتے ہیں‘ یہ مکمل طور پر آپ کا ذاتی معاملہ اور کھیل میں دلچسپی یا کھیل کے بارے علم پر منحصر ہوتا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ بھارت اور جنوبی افریقہ کے درمیان ایڈن گارڈنز میں کھیلے جانے والے ایک روزہ میچ کے دوران تقریباً ایک لاکھ تماشائیوں نے محض ساروو گانگولی کو بھارتی ٹیم میں شامل نہ کرنے پر جنوبی افریقہ کو سپورٹ کیا تھا۔ جب بھی گریم سمتھ ظہیر خان کی گیند کو باؤنڈری کے پار بھیجتے تو تماشائیوں میں خوشی کی لہر دوڑ اُٹھتی۔ اس دن بھاری شکست کے بعد میدان سے واپسی پر طیش میں آئے ہوئے گریگ چیپل نے سٹیڈیم کے باہر کھڑے شائقین کو نازیبا اشارے کرکے اپنے غصے کا اظہار کیا تھا۔ کیا ان تماشائیوں کو بھارت مخالف یا قوم دشمن قرار دیا جاسکتا ہے؟ ہمیں خود سے لازماً یہ سوال پوچھنا چاہئے کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ بھارتی مسلمان اس ملک میں خود کو تنہا کیوں محسوس کرنے لگے ہیں؟ میں نے اوپر جو واقعہ بیان کیا وہ کلکتہ میں پیش آیا تھا مگر تصور کیجئے کہ آج فیض آباد یا گورکھ پور میں ایک عام مسلمان کی حالت کیا ہوگی؟ کیا ہم بطور اکثریت کبھی یہ تصور کرسکتے ہیں کہ ایک ایسی حکومت کے اقتدار میں بھارتی مسلمانوں کے لئے رہنا کس قدر دہشت انگیز ہوسکتا ہے جس نے بنگلور کے نوجوان رکن پارلیمنٹ جیسے دائیں بازو کے کٹر پسندوں کو لاڈلا رکھا ہوا ہے؟ بھارتی مسلمانوں کے لئے روزمرہ کا استحصال‘ حملے‘ تشدد کے ذریعے قتل کردینے کے واقعات‘ نفرت انگیز تقاریر اور قتل کی کھلے عام دھمکیاں معمولات زندگی بن چکی ہیں۔(بشکریہ: ڈان۔ تحریر: اندریپ بھٹا چاریہ۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)
اشتہار
مقبول خبریں
حقائق کی تلاش
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
افغانستان: تجزیہ و علاج
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
جارحانہ ٹرمپ: حفظ ماتقدم اقدامات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
موسمیاتی تبدیلی: عالمی جنوب کی مالیاتی اقتصاد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
کشمیر کا مستقبل
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد پولیو جدوجہد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
درس و تدریس: انسانی سرمائے کی ترقی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد غربت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
مصنوعی ذہانت: عالمی حکمرانی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
شعبہ ئ تعلیم: اصلاحات و تصورات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام