پاکستان اور جرمنی کی دوستی کے ستر سال مکمل ہو گئے ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کا یہ عرصہ اقتصادی‘ سماجی‘ ماحولیات اور ثقافتی تعاون کے کلیدی ستونوں پر استوار ہے۔ 1961ء میں اُس وقت کے صد مملک ایوب خان جرمنی کے دورے پر گئے اور قریبی اقتصادی اور صنعتی تعاون کی بنیاد ڈالتے ہوئے دونوں ممالک کے تعلقات کو نئی جہت ملی۔ اس وقت کا مغربی جرمنی پاکستان کی تیز رفتار اقتصادی و صنعتی ترقی کی مثال کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔ پاکستان اور جرمنی نے تعاون بڑھانے کے کئی معاہدوں پر دستخط بھی کئے۔ یہاں یہ بات واضح کرنا ضروری ہے کہ پاکستان جرمنی کے ساتھ اقتصادی تعاون کے معاہدے پر دستخط کرنے والے چند پہلے ممالک میں شامل تھا۔ تب سے لے کر اَب تک باہمی احترام کے اصول پر دونوں ممالک کے درمیان تعاون جاری ہے۔ یہاں یہ بتانا دلچسپ ہے کہ پاکستان نے 1963ء میں جرمنی کو مقامی مسائل سے نمٹنے کیلئے پچیس ملین ڈالر قرض کے طور پر فراہم کیے تھے تاہم اس کے بعد پاکستان کے معاشی حالات خراب ہوئے اور توازن اِس حد تک بگڑا کہ بعدازاں جرمنی نے پاکستان کو مدد فراہم کرنا شروع کر دی۔ ایک اندازے کے مطابق 1961ء سے اب تک جرمنی نے پاکستان کو سماجی اور اقتصادی ترقی کیلئے مجموعی طور پر 3.8 ارب یورو فراہم کئے ہیں۔ جرمنی کی جانب سے قابل تجدید (رینیوایبل) توانائی‘ پیشہ ورانہ تربیت‘ حکمرانی اور سماجی ترقی کے شعبوں میں پاکستان سے تعاون کیا جاتا ہے۔ اگرچہ تعاون کے مذکورہ تمام شعبے اہم ہیں لیکن پیشہ ورانہ تربیت اور آب و ہوا یعنی ماحولیاتی تحفظ کے لئے جرمنی کی امداد نمایاں ہے۔ اس وقت جرمنی ناروے اور یورپی یونین کے تعاون سے پاکستان میں پیشہ ورانہ تربیت کا ایک پروگرام بھی چلا رہا ہے۔ پروگرام کے بڑے مقاصد میں روزگار کا فروغ‘ مزدوری کی بہتری‘ سماجی اور ماحولیاتی تحفظ سے متعلق حکمت عملیاں شامل ہیں۔ یہ پروگرام ایک بہت بڑی کامیابی ہے‘ جس میں ایک سو سے زیادہ کیریئر ایڈوائس سینٹرز قائم ہیں۔ جرمنی نے معیاری پیشہ ورانہ کورسیز میں بھی پاکستان کی مدد کی ہے۔ مزید یہ کہ ’ای لرننگ سنٹرز‘ کے ذریعے ساڑھے آٹھ ہزار ووکیشنل اساتذہ کو تربیت دی گئی ہے۔ اب پروگرام کا فوکس پالیسی ڈویلپمنٹ‘ نجی شعبے کی شراکت و مشغولیت‘ اصلاح شدہ پیشہ ورانہ تربیتی نظام کا نفاذ‘ انسانی وسائل کی ترقی اور اساتذہ کی تربیت وغیرہ شامل ہیں۔ جرمن سٹیٹوٹری ایکسیڈنٹ انشورنس نامی ادارہ پنجاب میں لیبر انسپکٹرز کو بھی تربیت فراہم کر رہا ہے تاکہ کام کاج کے حالات بہتر جا سکیں بالخصوص ٹیکسٹائل کا شعبہ جو کہ پاکستان کی برآمدات میں اہم حیثیت رکھتا ہے اِس شعبے سے متعلق ملازمین کو سہولیات فراہم کی جائیں۔ جرمنی گرین ٹرانزیشن میں بھی پاکستان کی مدد کر رہا ہے اور موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے تعاون کو بڑھایا ہے۔ جرمنی اور پاکستان نے نیچر بانڈ سلوشن‘ الیکٹرک وہیکل اور قابل تجدید توانائی وغیرہ کے شعبوں میں تعاون کو مضبوط بنانے کے لئے ڈیڑھ سو ملین یورو کے معاہدے پر دستخط کئے ہیں۔ جرمنی یورپی یونین میں پاکستان کا بڑا شراکت دار ہے۔ دوہزاربیس میں جرمنی کو پاکستان کی کل برآمدات ایک اعشاریہ چار ارب ڈالر اور درآمدات ایک اعشاریہ دو ارب ڈالر تھیں۔ نوے جرمن کمپنیاں بھی پاکستان میں کام کر رہی ہیں‘ جو پاکستان کی ترقی اور تکنیکی معاونت کے شعبوں میں مدد کر رہی ہیں۔ جرمنی نے ڈیبٹ سروس معطلی اقدام کے تحت پاکستان کا چھبیس اعشاریہ تیئس ملین یورو کا قرض بھی روک دیا ہے۔ کراچی میں گوئٹے انسٹی ٹیوٹ اور لاہور میں اینمیری شمل ہاؤس عوام اور ثقافتی تعلقات کو مزید مضبوط کرنے کے لئے کام کر رہے ہیں۔ جرمنی میں پانچ ہزار سے زائد طلبہ زیر تعلیم ہیں اور کچھ جرمن طلبہ پاکستان میں بھی زیر تعلیم ہیں۔ لائق توجہ ہے کہ جرمنی پاکستانیوں کے لئے دوسرا بڑا ملک ہے جہاں تارکین وطن کی بڑی تعداد رہتی ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان دوطرفہ تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کی بھی زبردست صلاحیت موجود ہے۔ اہمیت اور صلاحیت کو سمجھتے ہوئے پاکستان اور جرمنی نے پاک جرمن سٹریٹجک ڈائیلاگ کا آغاز کیا ہے۔ دوہزارگیارہ سے اب تک پاکستان اور جرمنی مذاکرات کے پانچ دور منعقد کر چکے ہیں۔ حال ہی میں‘ پاکستان نے جرمنی کو بھی ’چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک)‘ منصوبے میں شامل ہونے کی پیشکش کی ہے۔ ’سی پیک‘ کے دوسرے مرحلے میں صنعت کاری پر خصوصی توجہ دی جا رہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ پاکستان نے صنعت کاری کے فروغ کیلئے خصوصی اقتصادی زونز کے قیام جیسے اقدامات کئے ہیں۔ پاکستان اور چین تیسرے ممالک کو صنعت کاری کے عمل میں شامل ہونے اور فائدہ اٹھانے کی دعوت دے رہے ہیں اور یہ ایک اچھی طرح سے قائم شدہ حقیقت ہے کہ جرمنی اب ایک مضبوط صنعتی طاقت ہے اور ٹیکنالوجی کے میدان میں اس کی برتری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر جرمنی ’سی پیک‘ میں شامل ہو سکتا ہے تو چین اور پاکستان خوش ہوں گے۔ جرمنی ’سی پیک‘ سے فائدہ اٹھانے کیلئے منفرد پوزیشن میں ہے۔ تاریخی طور پر جرمنی کے چین اور پاکستان کے ساتھ گہرے تعلقات رہے ہیں۔ تازہ ترین اعدادوشمار کے مطابق چین میں پانچ ہزار جرمن کمپنیاں کام کر رہی ہیں۔ اِس فہرست میں ووکس ویگن‘ ڈیملر اور مرسڈیز‘ صنعتی کمپنی سیمنز‘ کیمیکل پروڈیوسر ’بی اے ایس ایف‘ اور ڈوئچے بینک شامل ہیں لہٰذا چین اور پاکستان کے ساتھ ماضی کے تجربے کی بنیاد پر جرمن کمپنیاں سی پیک میں قدم رکھ سکتی ہیں۔ جرمنی سی پیک میں شامل ہو کر اور چین اور افغانستان کے ساتھ تجارت کے لئے راستے استعمال کر کے بے پناہ فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ گوادر پورٹ چین اور افغانستان کے ساتھ تجارت کے لئے ٹرانزٹ پورٹ کے طور پر کام کر سکتی ہے۔ گوادر پورٹ اور سی پیک روٹ کو موجودہ روٹس پر تقابلی فائدہ حاصل ہے۔ مثال کے طور پر‘ موجودہ راستے سے کنٹینرز کو چین سے جرمنی پہنچنے میں پچاس دن لگتے ہیں تاہم اگر جرمنی گوادر پورٹ کے ذریعے تجارت کرتا ہے اور سی پیک کا راستہ استعمال کرتا ہے تو اس میں صرف اُنتیس دن لگیں گے اور اکیس دن کی بچت ہوگی۔ موجودہ راستے کا استعمال کرتے ہوئے فی کنٹینر کی قیمت چارہزار سے زائد ڈالرز لاگت ہے جبکہ ’سی پیک‘ استعمال کرنے سے لاگت یہ لاگت ستائیس سو ساٹھ ڈالر ہو جائے گی یعنی فی کنٹینر 1357 ڈالر بچت ممکن ہوگی۔ ان اعداد و شمار کی بنیاد پر گوادر پورٹ اور سی پیک روٹ تجارت کے کل حجم کو مدنظر رکھتے ہوئے جرمنی کو خاطر خواہ مالی وسائل بچانے میں مدد دے سکتا ہے۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق سال دوہزاربیس میں چین اور جرمنی کے درمیان کل تجارت 244.87 ارب ڈالر کی تجارت ہوئی تاہم مزید جرمن کمپنیوں کو راغب کرنے کے لئے پاکستان کو چند امور پر کام کرنا ہو گا۔ پاکستان کو سب سے پہلے اپنا کاروباری ماحول بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کو ایسا ماحول بنانا ہو گا جو کمپنیوں کو سہولت فراہم کر سکے اور یہ رکاوٹوں سے پاک ہو۔ دوسرا یہ کہ پاکستان کو سی پیک کے خصوصی اقتصادی زونز کی اچھی مارکیٹنگ کی حکمت عملی وضع کرنا ہوگی۔ اس مقصد کے لئے پاکستان کو دنیا کے دیگر اقتصادی زونز کی حکمت عملی کا مطالعہ کرنا ہوگا کہ تاکہ عالمی معیار کی سہولیات فراہم کی جا سکیں۔ تیسری ضرورت پاکستان جرمن کمپنیوں کی شمولیت کے لئے خصوصی رعایت اور امکانات پیدا کرنے کی ہے۔ اس مقصد کیلئے پاکستان چین کے ساتھ مل کر جرمن کمپنیوں کے ساتھ سہ فریقی بزنس فورم قائم کر سکتا ہے۔ کاروباری برادری کے ذریعے کام کرنا ایک اچھا تجربہ ہوگا۔ آخر میں پاکستان اور جرمنی تربیت اور مہارت کی ترقی کے شعبوں میں‘ خاص طور پر جدید ٹیکنالوجی کے شعبوں میں تعاون کو بڑھا سکتے ہیں۔ جس کی انتہائی ضرورت ہے کیونکہ دنیا چوتھے صنعتی انقلاب میں داخل ہو رہی ہے اور اِس عالمی صنعتی انقلاب سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے پاکستان اور جرمنی کو آپسی تعلقات مزید مضبوط اور وسیع بنانے کے امکان سے بھرپور فائدہ اُٹھانا چاہئے۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: شکیل رامے۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)
اشتہار
مقبول خبریں
حقائق کی تلاش
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
افغانستان: تجزیہ و علاج
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
جارحانہ ٹرمپ: حفظ ماتقدم اقدامات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
موسمیاتی تبدیلی: عالمی جنوب کی مالیاتی اقتصاد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
کشمیر کا مستقبل
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد پولیو جدوجہد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
درس و تدریس: انسانی سرمائے کی ترقی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد غربت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
مصنوعی ذہانت: عالمی حکمرانی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
شعبہ ئ تعلیم: اصلاحات و تصورات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام