اِلیکٹرانک ووٹنگ: ممکنہ مشکلات

جمہوریت میں اختلاف باعث برکت ہوتا ہے کہ اِس سے طرزحکمرانی اور قوانین کی جامعیت عیاں ہوتی ہے۔ پارلیمنٹ کے حالیہ مشترکہ اجلاس (سترہ نومبر) کے دوران انتخابی اصلاحات کے سمیت مجموعی طور پر 33 مسودات ِقانون کی ایوان سے منظوری حاصل کرنے کیلئے جو طریقہئ کار اختیار کیا گیا اُس سے حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان پہلے سے موجود خلیج میں اضافہ ہوا ہے اور وہی ہوا کہ جس کا خطرہ تھا کہ سیاسی محاذ آرائی کے شدت اختیار کرتی نظر آ رہی ہے جبکہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین پر پاکستان الیکشن کمیشن کے تحفظات بھی بدستورموجود ہیں اور وزیر اعظم عمران خان کے اس بیان کے برعکس کہ ووٹنگ مشین انتخابی عمل میں نیوٹرل امپائر ہے جس سے انتخابی دھاندلی کا خاتمہ ہو گا۔ سیکرٹری الیکشن کمیشن عمیر حمید خان نے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کے روبرو یہ بیان دے کر ای وی ایم کا معاملہ مزید گھمبیر بنا دیا کہ الیکشن کمیشن ووٹنگ مشین کے ذریعہ انتخابات کرانے کا پابند نہیں۔ پارلیمنٹ کا مشترکہ جس انداز میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال سمیت تینتیس بلوں کی منظوری لی گئی اس سے حکومت نے بیشک حزب اختلاف پر اہم پوائنٹ سکور کر لیا تاہم اس سے اب آئینی‘ قانونی اور عدالتی محاذ کھلنے کا اندیشہ لاحق ہو گیا ہے کیونکہ جس حزب اختلاف کو سپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے باہمی مشاورت اور افہام و تفہیم کے ساتھ بلوں کی منظوری کے عمل میں حصہ لینے پر آمادہ کیا گیا تھا وہی اپوزیشن اب ان بلوں کی یک طرفہ منظوری کا الزام عائد کر کے پارلیمنٹ کے اندر اور باہر اور اسی طرح عدلیہ کے روبرو سیاسی اور قانونی جنگ لڑنے کی بھرپور تیاری کرتی نظر آ رہی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے اسلام آباد میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین سے دھاندلی کے راستے بند ہو جائیں گے۔ ان کے بقول پرانے کرپٹ نظام سے فائدہ اٹھانے والے ملک میں تبدیلی نہیں چاہتے اور اپوزیشن نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں ڈرامہ کیا۔ انہوں نے اوورسیز پاکستانیوں کے لئے ووٹ کے حق سے متعلق قانون کی منظوری کی بھی ستائش کی اور کہا کہ اب اوورسیز پاکستانی بھی جمہوری عمل کا حصہ بن گئے ہیں۔ ان کے بقول بیرون ملک مقیم پاکستانی محنت کش ہیں۔ ان کی ترسیلات زر سے ہی ملک چل رہا ہے اور وہ اوورسیز پاکستانیوں کو ہی سب سے زیادہ محبِ وطن سمجھتے ہیں اس لئے ہمیں خوشی ہے کہ اوورسیز پاکستانیوں کے لئے مزید آسانیاں پیدا کی گئی ہیں۔ اس کے برعکس حزب اختلاف کے رہنما احسن اقبال‘ شیری رحمان اور وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے علاوہ اوورسیز پاکستانیوں کے ووٹ کے حق کے لئے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں کی گئی قانون سازی کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔ اس کے علاوہ سیکرٹری الیکشن کمیشن کی جانب سے الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے بارے میں تکنیکی نوعیت کے جن تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے اس کی بنیاد پر اپوزیشن کے مؤقف بھی تقویت ملے گی کیونکہ الیکشن کمیشن کی رپورٹ میں بھی ووٹنگ مشین کے انتخابات کی شفافیت کیلئے کارآمد نہ ہونے کے اعتراضات اٹھا کر انتخابات میں ای وی ایم کو بروئے کار لانے سے معذرت کی گئی تھی۔ اس حوالے سے حزب اختلاف کے قائدین کے علاؤہ آئینی ماہرین کی بھی یہی رائے سامنے آئی کہ آئین کی دفعہ 222 میں ترمیم کے بغیر انتخابی عمل کے حوالے سے الیکشن کمیشن کے اختیارات کسی دوسرے ادارے کو منتقل نہیں کئے جا سکتے۔ اس آئینی دفعہ کے تحت انتخابی عمل میں حلقہ بندیوں اور انتخابی فہرستوں کی تیاری کا اختیار بھی الیکشن کمیشن کو حاصل ہے اور ووٹنگ کیلئے کیا طریقہئ کار اختیار کرنا ہے‘ اس کے تعین کا مجاز ادارہ بھی پاکستان الیکشن کمیشن ہی ہے چنانچہ اس طریق کار میں تبدیلی اور الیکشن کمیشن کے اختیارات کسی دوسرے ادارے کو منتقل کرنا مقصود ہے تو اس کیلئے بہرصورت متعلقہ آئینی شقوں میں ترمیم کرنا پڑے گی جس کیلئے اسمبلی میں سرکاری بنچوں کو دوتہائی اکثریت درکار ہو گی۔ملک کی سیاسی صورتحال زیادہ مثالی نہیں۔ حکومت اور حزب اختلاف کے مابین پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کی کاروائی کے حوالے سے سیاسی محاذ آرائی جس نہج (انتہا) پر پہنچ چکی ہے اس کے پیش نظر حزب اختلاف کا متعلقہ آئینی ترامیم کیلئے ووٹ دینے پر آمادہ ہونا ممکن نظر نہیں آ رہا‘  حزب اختلاف کی جماعتیں تو اس وقت ہاؤس کے اندر اور باہر حکومت مخالف تحریک کیلئے سیاسی محاذ گرماتی نظر آ رہی ہیں جس کیلئے پیپلز پارٹی کی جانب سے دوبارہ حزب اختلاف کے اتحاد (پی ڈی ایم) میں شامل ہونے کا عندیہ مل رہا ہے۔ جمہوریت کو استحکام قومی امور اور ادارہ جاتی ہم آہنگی کے معاملہ میں حکومت اور حزب اختلاف کے باہمی تال میل سے ہی یقینی ہو سکتا ہے جبکہ حزب اختلاف کے ساتھ معاملہ فہمی کی ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے۔ اِس پورے سیاسی منظرنامے سے الگ عوام اپنے مسائل کا حل چاہتے ہیں جن کیلئے غربت‘ مہنگائی اور بے روزگاری جیسے مسائل مشکلات کا باعث ہیں۔ حزب اقتدار اور حزب اختلاف کو عام آدمی کے نکتہئ نظر سے بھی سوچنا چاہئے جسے ریلیف کے ذریعے مطمئن کیا جاسکتا ہے لیکن یہ ریلیف سیاسی استحکام کے بغیر ممکن نہیں ہوسکتاجس کی اس وقت ملک و قوم کو اشد ضرورت ہے۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: شاہ رمیز شاکر۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)