احساس راشن سبسڈی

مہنگائی کی لہر سے بالخصوص اشیائے خوردونوش خریدنے کی سکت نہ رکھنے والوں کی امداد کیلئے خصوصی حکمت عملی وضع کی گئی ہے جس کا نام ”احساس راشن رعایت پروگرام“ ہے۔ جیسا کہ ہر خاص و عام جانتا ہے کہ مہنگائی کی موجودہ لہر عالمی سطح پر رونما ہوئی ہے اور اِس سے صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ دیگر ممالک بھی متاثر ہیں۔ احساس راشن رعایت پروگرام کے تحت کم آمدنی والے خاندانوں کو مجموعی طور پر 120 ارب روپے کی رعایت دی جائے گی اور یہ رعایت صرف اُن خاندانوں کو دی جائے گی جو بنیادی ضروریات کی اشیا خریدنے کی بھی خاطرخواہ سکت نہیں رکھتے۔ اِس مقصد کیلئے پہلے ہی 50 ہزار سے زیادہ ’احساس سبسڈی سٹورز‘ نامزد کئے جا چکے ہیں جہاں سے مذکورہ طبقے کے لوگ رعایتی نرخوں پر اشیائے خوردونوش حاصل کر سکیں گے۔ اعدادوشمار سے عیاں ہے کہ کم آمدنی رکھنے والے طبقات اپنی آمدنی کا اندازاً 20 فیصد آٹے‘ دالوں اور کوکنگ آئل یا گھی پر خرچ کرتے ہیں۔ ایسے تمام خاندان جن کی آمدنی 50 ہزار روپے ماہانہ کے قریب ہو وہ ماہانہ ایک ہزار روپے سبسڈی سے فائدہ اُٹھانے کیلئے اہل ہیں یعنی وہ ایک ہزار روپے تک کی اشیائے خوردونوش رعایتی نرخوں پر حاصل کر سکیں گے۔ حکمت عملی کے تحت ”احساس راشن رعایت پروگرام“ کیلئے وفاقی اور صوبائی حکومتیں مل کر مالی وسائل فراہم کریں گی اور اِس کے لئے وفاقی حکومت 35 فیصد جبکہ صوبائی حکومت 65فیصد مالی وسائل فراہم کریں گی جبکہ اب تک بلوچستان اور سندھ کے علاوہ دیگر صوبوں نے اِس پروگرام میں شمولیت کیلئے رضامندی کا اظہار کیا ہے۔احساس راشن رعایت سبسڈی پروگرام ماضی کے تجربات کا نچوڑ ہے۔ کورونا وبا کے دوران ”احساس ایمرجنسی کیش پروگرام“ وضع کیا گیا جس میں تصدیق کے مراحل اور مالی امداد کی فراہمی ڈیجیٹل نظام سے منسلک تھی۔ راشن رعایت پروگرام کیلئے بھی اِسی ڈیجیٹل تصدیقی نظام سے کام لیا جائے گا۔ مثال کے طور پر پاکستان میں 8 لاکھ سے زیادہ کریانہ سٹور ہیں جو مضافاتی علاقوں میں بھی ہیں اور اِن کا جال شہروں میں بھی پھیلا ہوا ہے۔ یہ کریانہ سٹور راشن رعایت پروگرام کیلئے ریڑھ کی ہڈی جیسا کلیدی کردار ادا کریں گے۔ اِسی طرح پاکستان میں 8 کروڑ 60 لاکھ سے زیادہ صارفین موبائل فون استعمال کرتے ہیں جو 47 فیصد آبادی ہے جبکہ دس کروڑ پچاس لاکھ سے زائد صارفین تیزرفتار انٹرنیٹ (3G/4G) استعمال کر رہے ہیں۔ احساس راشن رعایت پروگرام سے استفادہ کرنے کیلئے ضروری ہے کہ رعایت حاصل کرنے والا اور کریانہ سٹور دونوں ہی کے کوائف پہلے سے رجسٹر ہوں۔ اِس مقصد کے لئے احساس ویب سائٹ پر رجسٹریشن کی جا سکتی ہے یا پھر 8171 پر اپنا قومی شناختی کارڈ نمبر بذریعہ ایس ایم ایس بھیج کر بھی رجسٹریشن ممکن ہے۔ حال ہی میں ملک گیر ’احساس سوشیو اکنامک رجسٹری (NSER) سروے‘ کروایا گیا جس میں جمع شدہ کوائف کو مدنظر رکھتے ہوئے مستحق خاندانوں کی نشاندہی کی جائے گی۔ اِس حکمت عملی کے تحت آٹے‘ گھی‘ خوردنی تیل اور دالوں پر 30فیصد رعایت دی جائے گی جو کسی خاندان کو ایک ماہ میں زیادہ سے زیادہ ایک ہزار (1000) روپے تک ہوگی۔ وہ کریانہ سٹور جو یہ اجناس سستے داموں فراہم کریں گے اُن کیلئے ضروری ہوگا کہ اُن کے کوائف احساس پروگرام کے ساتھ رجسٹر ہوں۔ اِس سلسلے میں ضروری ہے کہ مذکورہ کریانہ سٹور جو خود کو احساس پروگرام کے ساتھ رجسٹر کرنا چاہے وہ ایک عدد اینڈرائیڈ (سمارٹ) فون‘ قومی شناختی کارڈ اور اِس قومی قومی شناختی کارڈ پر لیا گیا موبائل فون نمبر کے علاوہ اپنے نام پر ایک عدد بینک اکاؤنٹ بھی رکھتا ہو۔ اِسی طرح احساس راشن کفایت سے مستفید ہونے والے جب کسی کریانہ سٹور پر جائیں گے تو وہاں اُن کا قومی شناختی کارڈ نمبر کا مشین میں اندراج کیا جائے گا اور وہ جو خریداری کریں گے اُس کی تفصیلات درج کی جائیں گی جن کی فوری تصدیق ہوگی۔ اِس مرحلے پر دھوکہ دہی سے بچنے کیلئے تصدیق کا مرحلہ دو مراحل پر مشتمل ہوگا اور اِس کے ذریعے ایک عارضی (OTP) پاسپورڈ سبسڈی لینے والے کے موبائل فون پر ارسال کیا جائے گا۔ خریداری ہونے کے بعد کریانہ سٹور کے اکاؤنٹ میں رقم چوبیس گھنٹوں کے اندر منتقل کر دی جائے گی۔ اِس بات کا بھی خیال رکھا گیا ہے کہ جو کریانہ سٹورز یہ خدمات فراہم کریں گے اُنہیں اِس خدمت اور سہولیات دینے کے لئے اضافی رقم کی فراہم کی جائے گی۔ اِس سلسلے میں نیشنل بینک آف پاکستان کے وسائل کا استعمال کرتے ہوئے ادائیگیاں کی جائیں گی اور احساس راشن رعایت پروگرام کیلئے تربیتی مواقعوں کا بندوبست و اہتمام بھی کیا جائے گا۔ احساس راشن رعایت پروگرام وضع کرتے ہوئے اُن سبھی مشکلات اور حالات کو دھیان میں رکھا گیا ہے جو ملک میں کم شرح خواندگی سے متعلق ہیں۔ کریانہ سٹورز کی اکثریت کے پاس بینک کھاتے (اکاؤنٹس) نہیں ہوتے اور اُن کے پاس دیگر آلات و سہولیات بھی نہیں ہوتی لیکن اِن سبھی مشکلات کو حل کرنے کے عزم سے راشن رعایت پروگرام شروع کیا جا رہا ہے جو مہنگائی کے سبب کم آمدنی رکھنے والے طبقات کی مشکلات کا حکومتی فیصلہ سازوں کو احساس سے متعلق ہے۔ اگر یہ حکمت عملی ایک مرتبہ لاگو ہو گئی تو اِس سے پورا ملک مستفید ہوگا اور ابتدأ میں جن پچاس ہزار کریانہ سٹورز کو اِس میں شامل کیا جائے گا جن کی تعداد بعدازاں بڑھا کر 1 لاکھ کر دی جائے گی جو ملک میں کریانہ سٹورز کی کل تعداد کا قریب 10فیصد ہوں گے۔ یہی نظام اُن 80 لاکھ مستحقین کی مدد کے مراکز بھی ہوں گے جنہیں احساس کفالت کے تحت مدد دی جاتی ہے۔احساس کے تحت سماجی بہبود اور بہتری کے جملہ منصوبوں کا ایک روشن پہلو یہ بھی ہے کہ اِن کے ذریعے ٹیکنالوجی سے متعلق شرح خواندگی میں اضافہ ہو رہا ہے اور بالخصوص ملک کے دیہی علاقوں میں جدید سہولیات سے استفادے کا آغاز کیا گیا ہے اور یہ ایک ایسا عمل ہے جو صرف مختلف احساس حکمت عملیوں کیلئے نہیں بلکہ مستقبل قریب و بعید میں دیگر حکومتی حکمت عملیوں کیلئے کارگر ثابت ہوگا۔ (مضمون نگار ایوان بالا (سینیٹ کی رکن اور وزیراعظم کی خصوصی مشیر برائے انسداد غربت و سماجی تحفظ ہیں۔ بشکریہ: دی نیوز۔  ترجمہ: ابوالحسن امام)