کہانی بیروت کی

بیروت جو کبھی امن و ترقی کی علامت سمجھا جاتا تھا اب وہاں پارلیمان کی کاروائی اندھیرے میں ہوتی ہے کیونکہ بجلی کے پیداواری اداروں کے پاس ایندھن ختم ہوگیا ہے۔ کھانے کی دکانوں کے باہر لوگوں کی طویل قطاریں لگی رہتی ہیں لیکن وہاں کھانا دستیاب نہیں ہے۔ علاج گاہوں میں ادویات کی کمی اِس حد تک ہے کہ معمولی سر درد میں آرام دینے کی عام دوائیں تک ختم ہوچکی ہیں۔ بیروت میں مشکلات زندگی معمول بن چکی ہیں۔ مہنگی رہائشی عمارتیں اب خالی رہنے لگی ہیں کیونکہ وہاں کے رہائشی یا تو ملک سے باہر چلے گئے ہیں یا انہیں گھروں سے نکال دیا گیا ہے۔ شہر کے پررونق چوراہے اب اندھیرے میں ڈوبے رہتے ہیں اور کبھی کبھار کوئی سایہ کچرے کے ڈھیر میں بچا ہوا کھانا تلاش کرتے ہوئے نظر آجاتا ہے۔ تو آخر اِس عظیم شہر کی یہ حالت کیسے ہوئی؟ سال1975ء میں شروع ہونے والی لبنان کی خانہ جنگی سے قبل بیروت کو یہاں کے تعلیم یافتہ افراد اور متنوع ثقافت کی وجہ سے ’مشرق وسطیٰ کا پیرس‘ کہا جاتا تھا۔ اُنیس سو ساٹھ اور ستر کی دہائیوں میں یونیورسٹی کے ایک جدید اور متنوع نظام کی وجہ سے پالیسی سازوں کو انسانی سرمائے کی فراہمی بہتر بنانے میں مدد ملی۔ اس وجہ سے خدمات کے شعبے اور خاص طور پر مالی ثالثی کے شعبے میں لبنان نے ایک خاص مقام حاصل کرلیا۔ خانہ جنگی سے قبل کے دس برس میں لبنان کی معیشت میں سالانہ چھ فیصد کا اضافہ ہورہا تھا جبکہ مہنگائی پانچ فیصد پر برقرار رہی۔ ان معاشی پالیسیوں کے نتیجے میں کرنٹ اکاؤنٹ اور فسکل سرپلس پیدا ہوا۔ اس عرصے میں جو سیاح بیروت گھومنے کے بعد ایتھنز کا دورہ کرتے تھے وہ یہ دیکھ کر حیران رہ جاتے تھے کہ بیروت کی چمک دمک کے آگے یونان کا دارالحکومت ماند پڑجاتا ہے تاہم جس بات کا ڈر تھا وہ ہو ہی گیا۔ موجودہ معاشی بحران اس قدر شدید ہے کہ عالمی بینک نے اسے 1800ء کے بعد سے سخت ترین معاشی بحران قرار دیا ہے۔ دوہزاراُنیس کے بعد سے لبنانی پونڈ کی قدر نوے فیصد کم ہوچکی ہے۔ کچھ تخمینوں کے مطابق اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں ساڑھے پانچ سو فیصد تک اضافہ ہوچکا ہے اور اس کی وجہ سے ماضی کے اوسط آمدن والے ملک میں تین چوتھائی لوگ غربت کا شکار ہوچکے ہیں۔ بیروت میں بجلی کی فراہمی کئی کئی دن تک معطل رہتی ہے جبکہ درآمد شدہ اشیائے خوردونوش‘ ادویات اور یہاں تک کہ پیٹرول بھی اب عام آدمی کی قوت خرید سے باہر ہوچکا ہے۔ سال دوہزاربیس میں لبنان کی معیشت بیس فیصد تک سکڑ گئی اور تخمینوں کے مطابق سال 2021ء یہ مزید دس سے پندرہ فیصد سکڑے گی۔ یہ صرف معاشی بحران نہیں بلکہ ایک انسانی المیہ ہے۔جس کو ٹالنے کے لئے اب بین الاقوامی برادری پر نظریں مرکوز ہیں مگر وہاں پر بدقسمتی سے ایسے حالات ہیں کہ عالمی برادری یا طاقتوں کا رویہ بھی ذاتی مفادات پر مبنی ہے اس ملک کی مدد کی جاتی ہے جن سے مفادات وابستہ ہوں اور مالیاتی ادارے بھی انہی ممالک کی مدد کرتے ہیں کہ جن کے وسائل سے دوبارہ استفادہ کرنا ممکن ہو یہی وجہ ہے کہ عالمی معیشت پر چند طاقتوں کا قبضہ ہے اور باقی ممالک کی حالت دگرگوں ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ ایک نیا معاشی ڈھانچہ اس طرح ترتیب دیا جائے کہ جس سے تمام ممالک یکساں طور پر استفادہ کر سکیں۔بیروت کے بدلتے حالات کی وضاحت لبنان کے سیاسی نظام کی ناکامی اور بڑھتی ہوئی کرپشن سے کی جاسکتی ہے۔ خانہ جنگی نے ملکی معاملات کو ٹھپ کردیا۔ سال دوہزارچودہ سے دو ہزار اٹھارہ کے درمیان تو لبنان میں کوئی صدر بھی نہیں تھا۔ یورپی پارلیمان نے عدم استحکام میں ملوث سیاسی شخصیات پر پابندی عائد کرنے کی دھمکی دی تو لبنان کی سیاسی جماعتوں نے ایک سال تک برقرار رہنے والے سیاسی ڈیڈ لاک کے بعد ستمبر کے مہینے میں بالآخر حکومت بنالی۔ کچھ سال پہلے ہی لبنان کے دیوالیہ ہونے کے آثار ظاہر ہونا شروع ہوچکے تھے لیکن اس معاشی بحران سے بچنے کیلئے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں اٹھائے گئے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ سیاسی سازشوں کے پیچھے دراصل کک بیکس اور ناجائز رقم کے حصول کیلئے ہونے والے جھگڑوں کا ہاتھ ہے۔ رانیہ ابو زیدی نے حال ہی میں نیویارک ٹائمز میں اس بات کی نشاندہی کی کہ لبنان میں حکومتی عہدے میرٹ کی بنیاد پر نہیں دیئے جاتے۔ ان کے مطابق یہ عہدے ’محصصۃ‘ کی بنیاد پر دیئے جاتے ہیں‘ جس کا مطلب یہ ہے کہ سرکاری عہدے من پسند افراد کو ہی دیئے جاتے ہیں۔ لبنان میں اعلیٰ ترین ادارے بھی کرپشن سے پاک نہیں ہیں۔ لبنان کے مرکزی بینک کے گورنر کو بڑی حد تک موجودہ معاشی بحران کا ذمہ دار تصور کیا جاتا ہے۔ وہ دوہزاراُنیس میں معاشی بحران کے آغاز سے کچھ ہی پہلے ’ناجائز ذرائع‘ سے کمائی گئی دولت کو ملک سے باہر منتقل کرنے کے الزام میں زیرِ تفتیش ہیں۔ سال دوہزاربیس میں بیروت میں ہونے والے خوفناک دھماکے میں دوسوسولہ افراد ہلاک ہوگئے تھے تاہم اس دھماکے کی تحقیقات میں بہت زیادہ پیشرفت نہیں ہوئی ہے۔ یوں اس بارے میں شبہات جنم لے رہے ہیں کہ شاید ملک کی عدلیہ بھی اب شفاف انداز میں کام نہیں کررہی ہے۔ مجموعی طور پر دیکھا جائے تو لبنان کا سیاستدان طبقہ مسلسل لوٹ مار اور طاقت کے حصول میں مشغول رہا اور کبھی اپنے قلیل مدتی ایجنڈوں سے بڑھ کر نہیں سوچ سکا۔ اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی غیر یقینی اور معاشی پالیسی کے ٹھہراؤ نے عرب دنیا اور اسلامی دنیا کیلئے امید کی کرن رہنے والے معاشرے اور معیشت کو تباہ کردیا۔لبنان کی اس افسوسناک کہانی میں کئی اسباق موجود ہیں کہ جہاں بھی اور جس ملک میں بھی اس طرح کے حالات سامنے آئے کہ وہاں پر اہلیت کی بجائے ذاتی پسند نا پسند پر توجہ مرکوز رکھی جائے اور معاملات کو میرٹ کی بجائے دیگر عوامل مدنظر رکھتے ہوئے طے کیا جائے تو ضروری ہے کہ وہاں پر مسائل جنم نہیں لیں گے اور اگر معیشت کو مضبوط بنیادوں پر استوار کرنے کی بجائے ظاہری نمود ونمائش کو ترجیح قرار دیا جائے تو بھی اس کے نتائج خاطر خواہ سامنے نہیں آتے اس لئے لبنان میں جو حالات آج ہیں وہ یقینا اس امر کی گواہی دیتے ہیں کہ کسی بھی ملک میں حکمرانوں پر بھاری بھر کم ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ملکی معاملات کو ذاتی ترجیحات کی بجائے قومی اور ملکی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے چلائیں۔
(بشکریہ: ڈان۔ تحریر: اقدس افضل۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)