ہیں تلخ بہت ’بندہئ مزدور‘ کے اُوقات

محنت کش اور مزدوروں کے لئے حالات کبھی بھی سازگار نہیں رہے پاکستان کی وفاقی اُور صوبائی حکومتوں نے مزدوروں کی کم سے کم اُجرت مقرر کر رکھی ہے۔ اِس میں سب سے زیادہ اُجرت کی حد پچیس ہزار روپے سندھ حکومت کی جانب سے اعلان ہوئی تو انسانی حقوق کے کارکنوں‘ مبصرین اور میڈیا اراکین کی جانب سے اس فیصلے کی خوب حمایت کی گئی۔ اس حوالے سے اخبارات میں تعریفی کالمز بھی شائع ہوئے تاہم یہ فیصلہ ہر کسی کے لئے خوشی کا باعث نہیں تھا۔ 9جولائی دوہزاراکیس کو سندھ حکومت کے لیبر اینڈ ہیومن ریسورس ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے جاری ہونے والے نوٹیفیکیشن میں کہا گیا کہ وہ ”یہ اعلان کرتے ہوئے خوشی محسوس کر رہے ہیں کہ غیر ہنرمند کم عمر اور بالغ مزدوروں کی کم از کم ماہانہ اجرت پچیس ہزار روپے مقرر کی جاتی ہے۔“ نوٹیفیکیشن میں یہ بھی کہا گیا اس کا اطلاق یکم جولائی دوہزاراکیس سے سندھ کے تمام صنعتی و کاروباری اداروں میں کام کرنے والے ہر غیر ہنرمند کم عمر اور بالغ مزدور پر ہوگا۔ اس بات پر بھی زور دیا گیا کہ اوقاتِ کار اور اوور ٹائم کی شرائط اور چھٹی کے دن کام کا تعین سندھ فیکٹریز ایکٹ 2015‘ پیمنٹ آف ویجز ایکٹ 2015ء اور دیگر متعلقہ لیبر قوانین کی روشنی میں ہوگا لیکن مزدوروں کے حالات کار اُور اُوقات کار اس کے باوجود بھی نہیں بدلے جیسا کہ اندیشہ تھا جلد ہی کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری‘ سائٹ (سندھ انڈسٹریل ٹریڈنگ اسٹیٹس) ایسوسی ایشن اور دیگر تنظیموں نے اس حکم کے خلاف درخواست دائر کردی کیونکہ کم از کم اُجرت کو سترہ ہزار سے بڑھا کر پچیس ہزار کرنے کے فیصلے نے صنعت کاروں کو ناراض کردیا۔ انہوں نے اس بات کی نشاندہی کی کہ حکومت نے یہ فیصلہ کرنے سے قبل ان سے مشاورت نہیں کی۔ صنعت کاروں کا کہنا تھا کہ ان کے پاس اب اس کے علاؤہ کوئی چارہ نہیں بچا کہ وہ کراچی کو چھوڑ کر اپنا کاروبار پنجاب جیسے صوبوں میں منتقل کردیں جہاں کی پالیسیاں ان کے لئے زیادہ فائدہ مند ہیں۔ صنعتکار عدالت گئے لیکن سندھ ہائی کورٹ نے حکومت کی جانب سے کم از کم تنخواہ پچیس ہزار روپے مقرر کئے جانے کے فیصلے کو برقرار رکھا۔ عدالت نے صوبائی حکومت کو کم از کم تنخواہ پر نظرثانی کی ہدایت کی لیکن ساتھ ہی حکومت کو یہ بھی ہدایت کی کہ جب تک اس پر نظرثانی نہیں ہوجاتی تب تک حکومت اس اجرت کی ادائیگی کو یقینی بنائے تاہم اس پوری کوشش اُور عدالتی کاروائی یا احکامات سے ہزاروں مزدور نئی طے شدہ کم از کم اجرت کے منتظر ہیں۔ مزدوروں کا کہنا ہے کہ وہ پاکستان کی معیشت کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ادارہ شماریات پاکستان کے مطابق سال 2021ء کی پہلی سہہ ماہی میں ٹیکسٹائل اور کپڑوں کی مد میں 3 ارب 46 کروڑ ڈالر کی برآمدات ہوئیں مگر یہی برآمدات اب 2022ء کی پہلی سہ ماہی ستائیس فیصد سے زیادہ بڑھ کر چار ارب بیالیس کروڑ ڈالر تک پہنچ گئی ہیں۔ جولائی دوہزاربیس سے مارچ دوہزاراکیس تک گیارہ ارب ڈالر سے زائد مالیت کی ٹیکسٹائل اشیا برآمد کی گئیں۔ مزدوروں کے مطابق یہ سب کچھ اس وجہ سے ممکن ہوا کہ وہ کورونا وبا کے باوجود ان گندی فیکٹریوں میں اپنا کام کرتے رہے جہاں پنکھے کے نیچے بیٹھنا بھی مراعات سمجھا جاتا ہے۔ گزشتہ بجٹ کے دوران حکومت نے صنعتوں کے لئے ریلیف کا اعلان کیا تھا تاہم مزدوروں کو بہت کم یا سرے سے کوئی بھی ریلیف حاصل نہیں ہوا۔ مزدوروں کو معلوم ہے کہ ان کے پاس دو راستے ہیں یا تو ان کے ساتھ جو بھی سلوک ہورہا ہے وہ اسے برداشت کرتے ہوئے کام جاری رکھیں یا پھر وہ امتیازی و جابرانہ سلوک کے خلاف متحد ہو کر آواز بلند کریں اور اس کی بھاری قیمت چکائیں۔گیارہ اکتوبر کو سندھ کے مزدوروں نے احتجاج کیا لیکن اِس احتجاج سے مزدوروں کو فائدہ ہونے کی بجائے نقصان ہوا اُور اُنہیں ملازمتوں سے فارغ کر دیا گیا کیونکہ اُن کی جگہ کم معاوضے پر پہلے سے زیادہ دیر کام کرنے والے مزدوروں نے لے لی! پاکستان کی تمام صنعتوں میں مزدوروں کو جن حقیقی مسائل کا سامنا ہے ان میں کم از کم اجرت کی عدم ادائیگی‘ اُن کا کوائف کا حکومت کے پاس اندراج نہ ہونا۔ طبی بنیادوں پر بامعاوضہ چھٹیاں نہ ملنا‘ اوور ٹائم کے لئے مناسب معاوضہ نہ ہونا اور مرکزی آجروں کی جانب سے غیر ذمہ دارانہ رویہ شامل ہیں مزدورں کے مطالبات کیا ہیں۔ ایک مزدور زیادہ سے زیادہ کیا چاہتا ہے کہ اُسے بنیادی انسانی حقوق فراہم کئے جائیں لیکن یہ حق مانگنے پر اُسے سزا دی جاتی ہے اگرچہ حکومت کی جانب سے کم سے کم اجرت مقرر کر دی گئی ہے اُور اِس اُجرت کی شرح میں ہر سال باقاعدگی سے اضافہ بھی کیا جاتا ہے جو کہ خوش آئند اقدام ہے لیکن اگر مزدوروں کی حمایت میں اٹھائے جانے والے فیصلے صرف کاغذ تک ہی محدود رہتے ہیں اُور اِن پر عمل درآمد نہیں ہوتا تو استحصال کے شکار مزدوروں اُور محنت کشوں کی مشکلات و مصائب کم نہیں ہوں گے۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: ڈاکٹر ریافت اللہ خان۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)