سال دوہزارپندرہ میں اُس وقت کے امریکی صدر باراک اوباما نے ”سپیس ایکٹ“ نامی ایک مسودہئ قانون پر دستخط ثبت کرکے خلأ میں انسان کے لئے ممکنہ مواقعوں کی تاریخ بدل کر رکھ دی تھی۔ مذکورہ امریکی قانون سازی کے تحت نجی کمپنیوں کو خلأ میں کام اور وہاں سے ثمرات کے حصول کا مکمل اختیار مل گیا یعنی اب اگر امریکی کمپنیاں کسی سیارے یا سیارچے پر کان کنی کرتی ہیں یا کوئی کالونی بناتی ہیں تو اس سے حاصل تمام مالی فوائد اور پیسہ اُن کا ہوگا اور اس پر ریاستی ٹیکس کے علاؤہ اور کوئی ادائیگی نہیں ہوگی۔ مذکورہ قانون کا سب سے زیادہ فائدہ فوری طور پر ”سپیس ایکس“ اور ”بلیو اوریجن“ نامی کمپنیوں کو ہوا تاہم اِس قانون نے دنیا بھر میں خلائی دوڑ کی جہت ہی تبدیل کردی۔ وہ خلائی دوڑ جو کبھی امریکہ اور روس کے درمیان مسابقت کا موجب تھی‘ وہ اب ایلون مسک اور ایمازون کے مالک جیف بیزوس کے درمیان شروع ہوئی اور یورپی کمپنیاں بھی اس ریس میں شامل ہونے کی تیاری کرنے لگیں لیکن پہل کی وجہ سے امریکی کمپنیوں کو اپنے مدِمقابل کمپنیوں پر سبقت حاصل ہے۔ یوں سمجھئے کہ مذکورہ قانون سازی کی وجہ سے خلأ کو صرف امریکہ ہی نہیں بلکہ عالمی سطح پر صنعت کا درجہ مل گیا اور اِس کے بعد دنیا کے تقریباً سبھی بڑے تعلیمی اداروں نے خلائی علوم سے متعلق مضامین کو نئے انداز سے پڑھانا شروع کردیا۔ سپیس انجینئرنگ کا وہ شعبہ جو کبھی صرف خلابازوں اور ناسا جیسے سرکاری اداروں تک محدود تھا‘ اس کے دروازے عام نوجوانوں کیلئے وا ہوگئے۔ اسی کے ساتھ پھر نئے سوالوں نے بھی جنم لینا شروع کیا کہ آخر انٹرنیٹ سے لے کر موبائل ٹیکنالوجی خلا میں کیسے کام کریں گی؟ خلأ میں معیشت کیسی ہوگی؟ اس معیشت کو چلانے والا کون ہوگا؟ خلائی جہاز کا کرایہ عام طیارے کے برابر کیسے لایا جائے گا؟ بڑے بڑے ڈرلرز مریخ کی سطح پر کیسے کام کریں گے؟ گویا ہر وہ چیز جو زمین میں پر وجود رکھتی ہے وہ خلأ تک کیسے پہنچے گی؟ ان سارے سوالوں کے سائنسی جوابات دینے کے مقصد سے دنیا کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں محققین تحقیق کررہے ہیں۔ آئندہ نسل کو ان سوالوں کی کھوج میں مدد فراہم کرنے کی غرض سے نت نئے کورس ترتیب دیئے جارہے ہیں۔ تو جناب یہ سب فقط ایک قانون میں تبدیلی سے ممکن ہوسکا جسے امریکی قانون سازوں نے متفقہ طور پر منظور کیا۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ اس قانون نے امریکہ کی دنیا میں نئی بالادستی کی بنیاد رکھی۔ گزشتہ دہائی کے دوران امریکہ اور چین کے مابین جاری معاشی جنگ میں ناتواں دانشور اس بات پر خوش ہوتے رہے کہ امریکہ یہ جنگ ہار رہا ہے۔ حتیٰ کہ خود امریکی دانشور بھی یہ جانتے تھے کہ وہ یہ جنگ ہار رہے ہیں اور اب سیلیکون ویلی کی جگہ چینی کمپنیاں تیزی سے یہ میدان اپنے نام کر رہی ہیں تبھی ایک دیوانے نے اسی ویلی میں اسپیس ایکس نامی کمپنی بنائی اور ایک نئے عہد کی بنیاد رکھی جس نے پرانی سیلیکون ویلی میں تبدیلی کی بنیاد ڈال دی۔خیر یہ باتیں تو سات سمندر پار امریکہ کی ہیں‘ فرض کیجئے کہ اگر یہ سب کچھ پاکستان میں ہوتا تو کیا ہوتا؟ سب سے پہلے تو غیر نظریاتی سیاستدان ایسی قانون سازی کی جرأت ہی نہ کرتے اُور اِس کی وجہ یقینا ان کی کم علمی یا کم فہمی نہیں بلکہ یہ ڈر ہوتا کہ کہیں کوئی اسے کسی سازش سے نہ جوڑ دے۔کوئی غریب ٹام ملر مٹی کے ماڈل بناتے بناتے فیلکن راکٹ نہ بناتا۔ تمام شاہین آنکھوں میں یہ خواب لئے ہی مرجاتے کہ وہ ایک دن ستاروں پر کمند ڈالیں گے۔ بس ہر بار یہی کہتے کہ ہمارا شاعر تو ہمیں سو سال پہلے ہی بتاچکے تھے کہ اصل صنعت خلا میں ہی ہے جس کا انہوں نے ایک شعر میں ذکر بھی کیا تھا یقینا پاکستان میں ابھی قانون سازی اس بلندی (نہج) پر نہیں پہنچی کہ مستقبل کے بارے فیصلے ہوسکیں جن کی بنیاد پر نئی صنعتیں قائم ہوں اور یہاں مسک اور بیزوس جیسے دیوانے بھی نہیں جو ناممکن کو ممکن بنا دیں تاہم بہت کچھ ایسا ہے جس سے متعلق پاکستانی سیاستدان ان حالات میں بھی بہت کچھ کرسکتے ہیں۔ دنیا میں معاشی انقلاب برپا کرتی کرپٹو کرنسی (cryptocurrency) کی صنعت کو ہی لیجئے۔ قریبی پڑوسی ملک نے بھی کرپٹو کرنسی پر پابندی ہٹا دی ہے اور اب اس حوالے سے قانون سازی کی طرف جا رہا ہے۔ چین اور برطانیہ اپنی ڈیجیٹیل کرنسیوں کیلئے ماہرین کی خدمات حاصل کر رہے ہیں۔ تیزی سے بدلتی ڈی فائی کرپٹو بینکوں سے زیادہ منافع بخش ذرائع بن رہے ہیں لیکن پھر بھی پاکستان کے قانون سازوں اور عوام کی اکثریت اِس نئی کرنسی سے لاعلم ہیں جو حقیقت میں مستقبل کی کرنسی ہے! پاکستان میں کرپٹو ایک ہی شخص تک محدود ہے جو لوگوں سے پیسے لے کر انہیں ڈے ٹریڈنگ سکھاتا ہے اور اپنے ایک کوائن کی رجسٹریشن کیلئے مہم کرتا پایا جاتا ہے۔ حکومت یا عوام نے کرپٹو کرنسی کو کاروباری شخص یا کاروباری اداروں کی نظر سے دیکھا ہے لیکن اس کے اصل استعمال یا جس کی وجہ سے اس کی مالی اہمیت سے آشنا نہیں ہیں بلکہ کرپٹو کرنسی پر خاطرخواہ توجہ ہی مرکوز نہیں کی گئی‘ یہاں تک کہ اس پر پابندی لگانے یا نہ لگانے پر بھی بحث نہیں ہوئی۔ ایک جدید ترین ٹیکنالوجی سے دور رہ کر آنکھیں بند کرنے کی مثال پاکستان میں سات دہائیوں سے قائم ہے لیکن اسے بدلنے کی ضرورت ہے۔ اگر پاکستان کے فیصلہ سازوں نے مستقبل کی کرنسی یعنی کرپٹو کے بارے میں فوری غوروخوض اور قانون سازی نہ کی تو پھر مستقبل میں درپیش معیشت کے مسائل (چیلنجز) کو حل کرنے کے قابل (اہل) نہیں ہو پائیں گے۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: نمر جواد۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)
اشتہار
مقبول خبریں
حقائق کی تلاش
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
افغانستان: تجزیہ و علاج
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
جارحانہ ٹرمپ: حفظ ماتقدم اقدامات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
موسمیاتی تبدیلی: عالمی جنوب کی مالیاتی اقتصاد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
کشمیر کا مستقبل
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد پولیو جدوجہد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
درس و تدریس: انسانی سرمائے کی ترقی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد غربت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
مصنوعی ذہانت: عالمی حکمرانی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
شعبہ ئ تعلیم: اصلاحات و تصورات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام