آج کی دنیا میں جنگوں کا ایک ہتھیار اقتصادیات بھی ہے اور لشکر کشی سے پہلے کسی قوم پر عرصہئ حیات اِس قدر تنگ کر دیا جاتا ہے کہ وہ یا تو مرنے کی آرزو کرنے لگے یا پھر وہ کسی بھی محاذ پر اپنا دفاع کرنے کی صلاحیت سے محروم ہو جائے۔ عالمی طاقتوں کی جانب سے ”اقتصادی ہتھیاروں“ کا استعمال کیا جاتا ہے جس میں اثرورسوخ بڑھایا جاتا ہے‘ اپنی بات منوانے کیلئے زبردستی کی جاتی ہے‘ ڈرایا جاتا ہے‘ دھمکایا جاتا ہے اور کسی ملک کو اقتصادی طور پر اِس حد تک کمزور (ناتواں) کر دیا جاتا ہے کہ وہ اپنی فیصلہ سازی (سوچ سمجھ) یعنی ”قومی مفاد (نیشنل انٹرسٹ)“ ہی سے ہاتھ دھو بیٹھے روس کے چھیاسٹھ سالہ فوجی جنرل اور ملک کے پہلے نائب وزیر خارجہ ’جیری سیموف Valery Vasilyevich Gerasimov‘ (پیدائش 1955ء) نے جدید جنگوں اور جدید جنگی ہتھیاروں سے متعلق ایک نظریہ پیش کیا جسے ”جیری سیموف نظریہ (Gerasimov Doctrine)“ کہا جاتا ہے اور اِس نظریئے کے مطابق …… ”موجودہ دور میں جنگ صرف ”چار ایک کے تناسب“ یعنی چار فیصد فوج اور ایک فیصد غیرفوجی اقدامات سے نہیں لڑی جاتی بلکہ اِس کا بیشتر انحصار غیرفوجی اور غیرروایتی ہتھیاروں پر ہوتا ہے۔“ ذہن نشین رہے کہ جنرل جیری سیموف روس کی فوج کے سربراہ بھی ہیں۔ اگر ہم روس کی موجودہ فوجی حکمت عملی دیکھیں تو اِس میں روایتی ہتھیاروں اور روایتی جنگی طریقوں جس میں فوجوں کی تعیناتی اور پیشقدمی شامل ہے کے علاؤہ یہ تدبیر بھی اختیار کی جاتی ہے کہ مخالف ملک کے خلاف غیرروایتی ہتھیاروں اور طریقوں کا استعمال کیا جائے جس میں ”اقتصادی ہتھیاروں“ کا استعمال نمایاں ہوتا ہے۔ روس کی جنگی حکمت ِعملی میں یہ بات بھی شامل ہے کہ کسی ملک میں غیریقینی کی صورتحال پیدا کی جائے۔ وہاں سیاسی و سماجی اور ثقافتی سطح پر بحران پیدا ہوں۔ وہاں قومیں طبقات میں تقسیم ہو کر اپنی شناخت کیلئے ایک دوسرے دست و گریباں ہو جائیں اور یوں پیدا کی گئی افراتفری کی صورتحال سے دشمن سمجھے جانے والے ملک کو فتح کر لیا جائے۔سال 2013ء سے 2017ء کے درمیانی عرصے میں امریکہ کے وزیر خزانہ رہے جیک لیو (Jack Lew) کو اِس نظریئے کا موجد مانا جاتا ہے کہ اُنہوں نے امریکہ کے مفادات کا تحفظ بذریعہ اقتصادی اقدامات کرنے کی حکمت عملی وضع کی اور اِس پر عمل درآمد کیا۔ تصور کیا جا سکتا ہے کہ جب کسی ملک پر فوج اور ہتھیاروں سے حملہ آور ہوا جاتا ہے تو اِس میں ناقابل تلافی جانی و بھاری مالی نقصانات کا اندیشہ بھی رہتا ہے اور اِس کے اخراجات‘ اُس ملک کی جانب سے مزاحمت یعنی وقت کے ساتھ بڑھتے چلے جاتے ہیں لیکن اگر کسی ملک کو پہلے اقتصادی طور پر کمزور (ناتواں) کر دیا جائے تو پھر حملہ کرنے اور کامیابی کے لئے فوج اور ہتھیاروں کے استعمال کی ضرورت (نوبت) ہی پیش نہیں آتی۔ امریکہ اِسی حکمت عملی کو آج بھی اپنائے ہوئے ہے جس کے عالمی مالیاتی ادارے (IMF)‘ عالمی بینک (World Bank)‘ اور عالمی ادارہئ تجارت (World Trade Organisation) کا استعمال کرتا ہے۔ ایورو ایشیا گروپ نامی ایک ادارہ جس کا صدر دفتر امریکہ کے شہر نیویارک میں ہے‘ کے سربراہ ایان بریمر (Ian Bremmer) نے اِس حکمت عملی کا خلاصہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”امریکہ اپنے مخالف ممالک کے خلاف عسکری مہمات سے گریز کرتا ہے اور اب دنیا پر اپنا حاکمیت بنانے کیلئے اِس کی حکمت ِعملی یہ ہے کہ اِس کے مخالف نظریات رکھنے والے ممالک کو اقتصادی طور پر کمزور اور ضرورت مند بنایا جائے کہ وہ امریکہ کی مالی مدد‘ تعاون‘ قرض یا اقتصادی امور میں رہنمائی کے بغیر اپنا وجود ہی کھو دے۔ پاکستان کی ضرورت یہ ہے کہ ”اقتصادی تحفظ“ کو بطور نظام اپنایا جائے۔(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)
اشتہار
مقبول خبریں
حقائق کی تلاش
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
افغانستان: تجزیہ و علاج
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
جارحانہ ٹرمپ: حفظ ماتقدم اقدامات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
موسمیاتی تبدیلی: عالمی جنوب کی مالیاتی اقتصاد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
کشمیر کا مستقبل
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد پولیو جدوجہد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
درس و تدریس: انسانی سرمائے کی ترقی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد غربت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
مصنوعی ذہانت: عالمی حکمرانی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
شعبہ ئ تعلیم: اصلاحات و تصورات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام