اِنسان کی مشکل یہ ہے کہ’’خوشی اور پریشانی“ دونوں حالتوں میں اِس کی تشویش کم نہیں ہوتی۔ بھارت کے نئے زرعی قوانین کے خلاف کسانوں کی جیت ناقابلِ یقین حد تک اچھی خبر ہے تاہم بھارتی وزیرِاعظم نریندر مودی کا پیچھے ہٹنا کوئی سیدھی سادی بات نہیں اور اس کو زیادہ بہتر طریقے سے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ یہ کسانوں کے لئے کسی بھی طور پر آسان نہیں تھا کہ وہ اپنے عزم کو برقرار رکھتے ہوئے تیرہ ماہ طویل جدوجہد جاری رکھتے‘ اسے تو ایک طرح کا ریکارڈ سمجھا جانا چاہئے۔ یہ کسانوں کی ذہین قیادت کے لئے خراج تحسین ہے۔ دہلی کی سرحد پر ایک سال قبل اپنے خیمے گاڑنے والے ان کسانوں میں اکثریت سکھوں کی تھی۔ ان کسانوں نے اپنے روزگار کے لئے خطرہ بننے والے قوانین کی منسوخی کے لئے دہلی کی سخت سردی‘ شدید گرمی اور تیز بارشوں کا بھی مقابلہ کیا۔ بدقسمتی سے اس جدوجہد میں تقریباً 700 افراد کی جان چلی گئی لیکن یہ بہادر مظاہرین ریاست اور میڈیا کی جانب سے اِشتعال دلائے جانے کے باوجود پرامن رہے اور اپنے مقصد پر جمے رہے۔ پولیس کو کھلی چھوٹ دی گئی اور ان مظاہرین کو مارا پیٹا گیا اور ان پر تشدد بھی کیا گیا۔ انہیں دہشت گرد اور نہ جانے کیا کچھ کہا گیا لیکن یہ لاکھوں کسان جن میں سے اکثر کے ساتھ ان کے گھر والے بھی موجود تھے۔ وزیرِاعظم سے زرعی قوانین کی تنسیخ کے وعدے پر عمل درآمد کروانے کے لئے ڈٹے رہے۔ مودی صاحب ان قوانین کو ایک صدارتی آرڈیننس کے ذریعے بھی منسوخ کرسکتے تھے لیکن انہوں نے پارلیمان میں بحث کا راستہ اس وقت چنا جب اترپردیش میں عام انتخابات قریب ہیں۔ اس کا اصل مقصد کورونا وباء سے نمٹنے میں دکھائی جانے والی نااہلی سے نمٹنا بھی تھا۔ یہاں یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ مودی نے اپنے ان قوانین کی مجوزہ واپسی کا اعلان کرتے ہوئے کیا کچھ کہا اور کیا کچھ نہیں کہا۔ کسی گہرائی میں جائے بغیر ویسے ہی ظاہر تھا کہ ٹیلی ویژن پر جاری خطاب کو قوم سے معافی کے طور پر تیار کیا گیا تھا۔ معافی اس لئے کہ وزیرِاعظم مودی ان لوگوں کے سامنے جھک گئے جو انہیں خوشحال بنانے کے لئے تیار کئے گئے قوانین کے پیچھے موجود وزیرِاعظم کی گہری حکمت کو نہیں دیکھ سکتے تھے۔ ان کے ساتھیوں نے اس معافی کی نسبتاً بہتر وضاحت کی۔ زعفرانی لباس میں ملبوس رہنے والے ساکشی مہاراج اُترپردیش کے علاقے اناؤ سے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے رکن پارلیمنٹ ہیں۔ انہیں یقین ہے کہ یہ قوانین دوبارہ نافذ ہوجائیں گے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’بل بنتے رہتے ہیں اور منسوخ ہوتے رہتے ہیں۔ یہ دوبارہ بھی لائے جاسکتے ہیں اور دوبارہ بنائے جاسکتے ہیں۔ اس میں زیادہ وقت نہیں لگتا۔‘ بی جے پی کے دیگر کٹر گروہوں کی جانب سے بھی کچھ اسی قسم کے بیانات سامنے آئے۔ راشٹریہ سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے کسان فورم بھارتیہ کسان سَنگھ نے ”نام نہاد کسانوں کو خوش کرنے“ کے لئے اٹھائے جانے والے اس قدم کو مسترد کیا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مودی کی جانب سے اٹھائے گئے اس قدم کے ان ریاستوں میں کیا اثرات ہوں گے جن میں انتخابات ہونے والے ہیں بالخصوص اتر پردیش میں؟ یادش بخیر پانچ سال قبل اتر پردیش میں ہونے والے انتخابات سے قبل مودی نے کرنسی نوٹوں کو بند کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اس قدم سے معیشت کو تو نقصان پہنچا ہی تھا لیکن ساتھ ہی حزب اختلاف کو بھی فنڈز کی قلت کا سامنا ہوگیا تھا۔ ساکشی مہاراج نے اتر پردیش کے ووٹرز کے سامنے پیچھے ہٹنے میں نیشنل ازم (یا فرقہ واریت) کے کردار کا بھی اشارہ دیا ہے۔ ساکشی مہاراج نے کہا کہ میں مودی جی کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے قوانین پر قوم کو ترجیح دی اور ان لوگوں کو منہ توڑ جواب دیا جن کی نیتوں میں کھوٹ تھا‘ جنہوں نے ’پاکستان زندہ باد‘ اور ’خالصتان زندہ باد‘ کے نعرے لگائے۔‘ تو نریندر مودی نے مظلوم بننے کے علاوہ کیا کیا؟ حکومت نے قوانین میں ترمیم کی پیشکش کی جسے کسانوں نے مسترد کردیا۔ مودی نے دو سال کے لئے تینوں قوانین کو معطل کرنے کی بھی پیشکش کی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے ان قوانین کے نفاذ پر حکم امتناعی (سٹے آڈر) دیا ہوا ہے یعنی مودی کے سرمایہ دار دوستوں کا کام تو ویسے بھی نہیں بنا‘ تو کیا مودی نے ایک مجبوری کو اپنے فائدے میں استعمال کرنے کی کوشش کی ہے؟ کچھ لوگوں کی جانب سے مودی کی تقریر کو کسانوں سے معافی بتایا جارہا ہے۔ تو کیا مودی نے واقعی کسانوں سے معافی مانگی ہے یا پھر انہوں نے کسانوں کو پوری قوم کے سامنے شرمندہ کیا ہے؟نریندر مودی ایک ماہر سیاستدان ہیں جو کسی بھی جذباتی موقع کو ضائع نہیں کرتے۔ انہوں نے اپنے بیان میں کہا کہ ’میں آج اپنے ہم وطنوں سے معافی مانگتے ہوئے سچے دل کے ساتھ یہ کہنا چاہتا ہوں کہ شاید ہماری کوششوں میں کچھ کمی رہ گئی کہ ہم اپنے کسان بھائیوں کو روشن چراغ کی مانند حقیقت نہیں دکھا سکے۔‘ انہوں نے ناظرین کو یہ بھی یاد دلوایا کہ وہ گرونانک کے جنم دن پر ان سے مخاطب ہیں جو سکھوں کے اہم ترین دنوں میں سے ایک ہے۔ نریندر مودی نے کہا ”یہ کسی پر الزام عائد کرنے کا وقت نہیں ہے۔ آج میں پورے ملک کو بتانا چاہتا ہوں کہ ہم نے تینوں زرعی قوانین کو منسوخ کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ ان تینوں قوانین کی منسوخی کا آئینی عمل اس مہینے کے اختتام سے شروع ہونے والے پارلیمانی سیشن میں مکمل کرلیا جائے گا۔ میں احتجاج کرنے والے تمام کسان ساتھیوں سے درخواست کرتا ہوں کہ آج مقدس دن ہے اس لئے آج آپ کو اپنے گھروں‘ کھیتوں اور اپنے خاندان کے پاس لوٹ جانا چاہئے۔ آئیے ایک نیا آغاز کریں اور اس نئے آغاز کے ساتھ آگے بڑھیں۔“ تاہم کسانوں نے فوراً احتجاج ختم کرنے کا فیصلہ نہیں کیا۔ انہوں نے ایک اہم مطالبے پر قائم رہنے کا فیصلہ کیا ہے جس پر نریندر مودی نے کوئی بات نہیں کی۔ وہ مطالبہ زرعی پیداوار کے لئے حکومت کی جانب سے دی جانے والی کم از کم امدادی رقم کو قانونی تحفظ فراہم کرنا ہے۔ کسان ایک ایسی قیمت کا مطالبہ کررہے ہیں جس میں سرمایہ کاری کے علاوہ پچاس فیصد منافع بھی ملے۔ کاروباری افراد کے ساتھ چلنے والی کوئی بھی حکومت اس مطالبے کو پورا کرنے سے پہلے کئی مرتبہ سوچے گی۔ بھارت میں معاشی سودے بازی کے علاوہ بھی بہت کچھ داؤ پر لگا ہے۔ بہت حد تک سکھوں کی قیادت میں چلنے والی تحریک نے اپنے سیاسی مضمرات کے حوالے سے بھارتی ڈیپ سٹیٹ کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ دائیں بازو کے نظریات رکھنے والی کوئی بھی ریاست عوام کے اتحاد سے پریشان ہے۔ یہ سکھ نوجوان ہی تھے جنہوں نے جموں و کشمیر پر ہونے والے حالیہ بھارتی حملے اور اس کے نتیجے میں مواصلات کی بندش کے بعد کشمیری خواتین کو ان کے گھروں تک پہنچایا تھا۔ سکھ گرودواروں نے عام شہریوں کے ساتھ مل کر اور اپنے بے پناہ وسائل کے ساتھ کورونا کے دوران بدانتظامی کے شکار افراد کی مدد کی۔ اس کے علاوہ سکھوں نے دیگر اقلیتوں کے ساتھ مل کر شہریت کے قانون کے خلاف چلنے والی مہم میں بھرپور حصہ لیا جس کی قیادت بڑی حد تک مسلم خواتین کررہی تھیں۔ بھارت کی ریاست کے پاس ایسے وسائل تو ہیں جن کے استعمال سے وہ الگ تھلگ رہنے والی برادریوں کے ساتھ سختی سے نمٹ سکے لیکن کسانوں نے عام ہندوستانیوں کے اندر جو اتحاد پیدا کیا ہے وہ ایک اچھی خبر ہے۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: جاوید نقوی۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)