کورونا وبا انسانی تاریخ کیلئے سبق آموز پہلو رکھتی ہے اور یہ ایسی مثالوں کا مجموعہ بھی ہے‘ جس سے نمٹتے ہوئے کسی ایک ملک کی صورتحال سے دوسرے ملک بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ دنیا کے کئی ممالک کی طرح بھارت میں ’کورونا وبا‘ پھیلنے کا عمل اور اِس کے منفی معاشی و سماجی اثرات کا سلسلہ جاری ہیں‘ جن کی بھاری قیمت متوسط و غریب طبقات کو ادا کرنا پڑ رہی ہے ماہرین کے اندازے کے مطابق کورونا وبا کے علاج کے لئے بھاری سود پر اُدھار لینے والوں کی تعداد لاکھوں میں ہے جنہوں نے مجموعی طور پر کروڑوں روپے کا قرض لیا ہے اور چونکہ وبا کے سبب معیشت بھی سست روی کا شکار ہے اِس لئے سود لینے والوں کو اصل رقم اور سود دونوں کی ادائیگی میں مشکلات درپیش ہیں۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ کورونا وبا نے ایک اور المیے کو جنم دیا ہے جو یکساں سنگین نوعیت کا ہے۔ ماہرین کے مطابق بھارت میں ایسے نجی ہسپتال بھی ہیں جہاں کورونا وبا کے علاج معالجے کے نام پر من مانی رقم وصول کی گئی حالانکہ کورونا وبا کا کوئی بھی علاج نہیں ہے اور دوسری اہم بات یہ ہے کہ کورونا وبا سے متاثرین کیلئے علاج معالجے کی سہولیات فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے‘ جو اپنی جگہ یہ فریضہ سرانجام دینے میں ناکام رہی ہے۔ بھارت کی مرکزی اور مختلف صوبائی (ریاستی) حکومتوں کا دعویٰ ہے کہ اُنہوں نے کورونا وبا کے دوران لاکھوں مریضوں کو مفت طبی سہولیات فراہم کیں۔ یہ دعویٰ کسی حد تک درست بھی ہے لیکن چونکہ بھارت کی آبادی بہت زیادہ ہے اور اِتنی بڑی آبادی میں متاثرین کی شرح بھی زیادہ ہے‘ تو حکومت کے عملاً ممکن نہیں کہ وہ علاج معالجے کی سہولیات کا دائرہ وسیع کر سکے۔ خاص بات یہ ہے کہ کورونا وبا کے دوران بھارت کے کئی بینکوں نے علاج معالجے کیلئے قرض دینے کی سکیمیں شروع کیں لیکن بینکوں سے قرض سرکاری ملازمین یا ایسے نجی اداروں کے ملازمین کو دیا گیا جن کے قرض واپسی کی ذمہ داری اُن کے اداروں نے اُٹھائی۔ بھارت میں معلومات تک رسائی (رائٹ ٹو انفارمیشن) کا قانون موجود ہے اور اِس قانون کے تحت اکٹھا کی گئی معلومات کے مطابق مئی دوہزاراکیس سے اگست دوہزاراکیس تک دو لاکھ اڑتیس ہزار تین سو انہتر افراد نے اپنے یا اپنے خاندان کے افراد کے علاج کیلئے بینکوں سے مجموعی طور پر 4 کھرب بھارتی روپوں سے زائد کا قرض حاصل کیا۔ یہ رقم کتنی بڑی ہے؟ اِس کا اندازہ اِس بات سے لگایا جا سکتا ہے بھارت کے ترقی یافتہ صوبے گجرات کیلئے مختص صحت کے کل بجٹ کا قریب تیس فیصد ہے اور یہ رقم عام لوگوں نے صرف تین ماہ میں قومی بینکوں سے قرض کی صورت میں لی اور اِسے خرچ کر بیٹھے۔ حقیقت حال یہ ہے کہ اپریل سے جون دوہزاراکیس کا عرصہ بھارت کے ہر شہری کیلئے کسی ڈراؤنے خواب جیسا رہا کیونکہ اس دوران کورونا کی دوسری لہر کی زد میں آنے والے لاکھوں افراد کی موت ہوئی۔ شمشان گھاٹوں‘ نئے ہسپتالوں کے باہر لاشیں پڑی دیکھی گئیں اور اپنے پیاروں کو کھونے والوں کی چیخ و پکار اس قدر بڑھ گئی کہ دنیا بھر میں اس کا چرچا ہونے لگا۔ یہ مناظر اِس قدر خوفناک تھے کہ بہت سے لوگوں نے قرض لے کر علاج معالجہ شروع کیا اور ظاہر ہے کہ جب سود پر بھی قرض دستیاب نہیں تھا تو قومی بینکوں نے کورونا علاج کے لئے خصوصی قرضے دینا شروع کئے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس سکیم کے تحت مختلف قومی بینکوں نے انکم ٹیکس دہندگان‘ پیشہ ور افراد‘ ملازمت کے متلاشیوں اور پنشنرز کو کورونا کے علاج کیلئے پچیس ہزار سے پانچ لاکھ روپے تک کے قرضے دیئے اور اس رقم پر سود کی شرح ساڑھے آٹھ سے ساڑھے نو فیصد سالانہ رکھی گئی لیکن ملک کے کئی حصوں میں‘ بہت سے لوگوں نے اپنے یا اپنے خاندان کے علاج کے لئے نجی قرض دہندگان سے بھی قرض لیا ہے۔ اس سے متعلق بہت سی خبریں کئی اخبارات میں شائع ہوئیں اور سوشل میڈیا پر وائرل بھی ہوئیں۔ آخر عوام کو کورونا علاج کے لئے قرض لینے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ ماہرین یہ بھی کہتے ہیں قرض سے متعلق بینکوں اور غیربینکوں سے دیئے گئے قرض بارے اعداد و شمار پوری حقیقت کو بیان نہیں کر رہے بلکہ لیا گیا قرض اِس سے کئی گنا زیادہ ہو سکتا ہے۔ مذکورہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ خوفزدہ اور گھبراہٹ کا شکار بہت سارے لوگوں نے قرض غیر ضروری طور پر خرچ کیا یا اُن کی مجبوری سے نجی علاج گاہوں نے ناجائز فائدہ اُٹھایا یقینا صرف بھارت ہی نہیں بلکہ خطے کے دیگر ترقی پذیر ممالک کو بھی کورونا وبا سے سبق سیکھتے ہوئے اِس بات کو یقینی بنانا چاہئے کہ مستقبل میں ایسا جبکہ کورونا وبا کی نئی قسم منظرعام پر آ چکی ہے اور اِس کا سفر جنوبی افریقیائی ممالک سے شروع بھی ہو چکا ہے جس کے پہنچنے میں زیادہ دیر نہیں اور بتایا جا رہا ہے کہ ’کورونا وبا‘ کی یہ نئی قسم پہلے سے زیادہ تیزی سے پھیلنے کی صلاحیت کے سبب زیادہ خطرناک ہے‘ اِس لئے اندیشہ ہے کہ ایک مرتبہ پھر عوام گھبراہٹ‘ خوف اُور ناکافی معلومات کے باعث غلط فیصلے کریں‘ جس سے نہ تو وبا کا علاج ممکن ہے لیکن ایک وبا سے نمٹتے ہوئے قرض اور سود جیسی وبائیں زندہ بچ جانے والوں کیلئے یکساں بڑا چیلنج ثابت ہوں گی۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: ارجن پرمار۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)
اشتہار
مقبول خبریں
حقائق کی تلاش
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
افغانستان: تجزیہ و علاج
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
جارحانہ ٹرمپ: حفظ ماتقدم اقدامات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
موسمیاتی تبدیلی: عالمی جنوب کی مالیاتی اقتصاد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
کشمیر کا مستقبل
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد پولیو جدوجہد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
درس و تدریس: انسانی سرمائے کی ترقی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد غربت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
مصنوعی ذہانت: عالمی حکمرانی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
شعبہ ئ تعلیم: اصلاحات و تصورات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام