حصص مارکیٹ میں مندی کا جاری رجحان اِس بات کی عکاسی کر رہا ہے کہ اندرون و بیرون ملک سے سرمایہ کاری کرنے والوں کا حکومت کی اقتصادی حکمت علی میں یقین پختہ نہیں۔ سٹاک مارکیٹ میں مندی کے موجودہ رجحان کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ عموماً چھوٹے سرمایہ کار ادھار پر کام کرتے ہیں اور مندی کی وجہ سے اس کا بنیادی سرمایہ بھی ڈوب چکا ہے۔ اس وقت وہ چھوٹے سرمایہ کار موجود ہیں جن کے پاس اپنا ذاتی تھوڑا بہت سرمایہ ہے اور وہ اپنے شیئرز ہولڈ کئے ہوئے ہیں۔ حصص مارکیٹ میں میوچوئل فنڈز‘ مالیاتی ادارے اور بڑے انفرادی سرمایہ کار موجود ہیں اور یہ سب مل کر کام کر رہے ہیں جبکہ بیرونی سرمایہ کار بھی مارکیٹ میں نہیں جس کی وجہ سے مندی کا رجحان زیادہ تیز نظر آ رہا ہے۔ جب مارکیٹ گرتی ہے تو بڑے سرمایہ کار میوچوئل فنڈز سے اپنا سرمایہ نکال لیتے ہیں جس کا منفی اثر سٹاک مارکیٹ پر پڑتا ہے اور مندی کو اس سے بڑھاوا ملتا ہے۔ موجودہ صورتحال میں چھوٹے سرمایہ کار مارکیٹ سے نقصان اٹھا کر باہر ہو چکے ہیں تاہم ایسا اُن سرمایہ کاروں کے ساتھ ہوا ہے جو مارجن فنانسنگ یعنی اُدھار پر کام کر رہے تھے۔ جن سرمایہ کاروں نے ذاتی سرمایہ مارکیٹ میں لگایا ان کے لئے زیادہ فکر کی بات نہیں کیونکہ وہ اپنے شیئرز تب تک اپنے پاس رکھیں گے جب تک کہ مارکیٹ میں کوئی مثبت پیش رفت نہیں ہوتی۔
گذشتہ برس کے آخر میں دنیا بھر کے مالیاتی اداروں کی کارکردگی کو جانچنے والے امریکی ادارے ’مارکیٹ کرنٹس ویلتھ نیٹ‘ نے پاکستان کی سٹاک مارکیٹ کو ایشیا میں سب سے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے پر ’بیسٹ پرفارمنگ مارکیٹ‘ قرار دیا تھا تاہم ایک سال کے بعد حالیہ مہینوں میں ملکی سٹاک مارکیٹ زبردست دباؤ کی شکار نظر آتی ہے۔ کئی ماہ سے اس کی کارکردگی میں اتار چڑھاؤ کے بعد دو دسمبر کے روز سٹاک مارکیٹ میں زبردست مندی کی وجہ سے ”کے ایس ای 100 انڈیکس“ میں اکیس سو سے زائد پوائنٹس کی کمی دیکھنے میں آئی۔ مذکورہ ریکارڈ مندی کو ’سٹاک مارکیٹ‘ کیلئے سیاہ دن قرار دیا گیا۔ یاد رہے کہ دوہزاربیس میں کورونا وائرس کی عالمی وبا پھوٹنے کے بعد جب پاکستان میں لاک ڈاؤن لگانے کی تیاری ہو رہی تھی تو سولہ مارچ دوہزاربیس کے روز سٹاک مارکیٹ میں دوہزار پوائنٹس سے زائد کی کمی دیکھنے میں آئی تھی اور جمعرات کو 2135 پوائنٹس کی کمی موجودہ سال میں ایک کاروباری دن میں سب سے بڑی کمی رہی ہے۔ سٹاک مارکیٹ کے کاروبار سے وابستہ اور اس کے ماہرین کے مطابق پاکستانی سٹاک مارکیٹ میں مندی کے رجحان کی وجہ پاکستان کے معاشی میدان میں تواتر سے ظہور پذیر ہونے والے ایسے واقعات ہیں جن کا اثر پاکستان کی سٹاک مارکیٹ پر منفی صورت میں پیدا ہوا۔ ان کے مطابق سٹاک مارکیٹ معیشت کی عکاس ہوتی ہے اور اگر گذشتہ برس یہ ایشیا کی بہترین کارکردگی والی مارکیٹ تھی تو اس کی وجہ اس وقت کے معاشی حالات تھے اور آج کے معاشی حالات اور اشاریئے اس بات کا واضح پتا دیتے ہیں کہ ملکی معیشت گراوٹ کی شکار ہے اور سٹاک مارکیٹ اس خراب معاشی صورت حال کا پتا دیتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ کوئی بھی معیشت اتنی بلند شرح سود کے ساتھ ترقی نہیں کر سکتی اس لئے پاکستانی معیشت میں منفی رجحان پروان چڑھ رہا ہے۔پاکستان سٹاک ایکس چینج میں مسلسل مندی کے رجحان اور جمعرات کے روز اس میں موجودہ سال کی سب سے بڑی آنے والی کمی کے بارے میں سٹاک مارکیٹ کے کاروبار سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ یہ معیشت کے میدان میں آنے والی منفی خبروں کے نتیجے میں نچلی سطح پر جا پہنچی ہے۔ پاکستان کی سٹاک مارکیٹ بہت حساس ہے اور کسی بھی منفی خبر پر بہت جلدی رد عمل دکھاتی ہے اور موجودہ صورت حال بھی منفی خبروں کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے۔ سٹاک مارکیٹ میں ایک چھوٹی سی منفی خبر پر بھی بہت زیادہ رد عمل آتا ہے اور اب تو معاشی میدان سے مکمل طور پر منفی خبریں آ رہی ہیں جس کا سٹاک مارکیٹ میں مندی کے رجحان سے پتا چلتا ہے۔ شرح سود میں ہونے والے اضافے نے حصص کے کاروبار پر بہت زیادہ منفی اثر ڈالا ہے اور اس میں مزید متوقع اضافے کی خبروں نے بھی کاروبار کو متاثر کیا ہے۔ اسی طرح ملک کا بڑھتا ہوا تجارتی خسارہ اور اس کی وجہ سے جاری کھاتوں کے خسارے میں اضافہ اور مقامی کرنسی پر آنے والے دباؤ نے سٹاک مارکیٹ کو منفی خبروں کی زد میں لے رکھا ہے۔ جب کورونا کی وبا پھوٹنے کے بعد سٹاک مارکیٹ تیس ہزار پوائنٹس سے بھی نیچے چلی گئی تھی تو پھر معیشت میں بہتری آنی شروع ہوئی جب شرح سود کو نیچے گرایا گیا تو اس کا اثر سٹاک مارکیٹ پر مثبت انداز میں ہوا جب کاروبار میں تیزی دیکھی گئی اور انڈیکس بڑھ کر اڑتالیس ہزار کی سطح تک پہنچ گیا تاہم مسلسل کئی ہفتوں سے معاشی محاذ پر منفی خبروں نے سٹاک مارکیٹ کو بری طرح متاثر کیا ہے جس میں سب سے بڑی وجہ شرح سود میں اضافہ ہے اور اس نے سٹاک مارکیٹ میں کاروبار پر منفی اثرات مرتب کئے۔ملک کے معاشی اشاریئے منفی ہوئے ہیں جن میں درآمدات میں اضافہ شامل ہے جس کی وجہ سے تجارتی اور جاری کھاتوں کے خساروں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ شرح سود میں مزید اضافے کی خبروں نے مارکیٹ میں منفی رجحان کو بہت زیادہ بڑھاوا دیا جس کی ایک مثال مرکزی بینک کی جانب سے چھ مہینے کے حکومتی بانڈز پر ساڑھے گیارہ فیصد کی شرح سود پر خریداری ہے جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ اگلی زری پالیسی میں شرح سود میں مزید اضافہ ہوگا۔ ماہرین کا اتفاق ہے کہ شرح سود میں اضافے نے حصص مارکیٹ پر منفی اثر ڈالا تو اس کے ساتھ آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والے معاہدے کی سخت شرائط نے بھی کاروبار میں منفی رجحان پیدا کیا کیونکہ ان شرائط کی وجہ سے ملک کی معیشت میں مزید بگاڑ کا امکان ہے مگر کیا سٹاک مارکیٹ معیشت کی درست عکاسی کرتی ہے؟ معاشی میدان میں منفی خبروں کی اثرانگیزی کا علم سٹاک مارکیٹ میں ٹریڈنگ سے ہوتا ہے‘ اسی لئے تو مارکیٹ میں زبردست مندی کا رجحان غالب ہے۔ اگرچہ سٹاک مارکیٹ میں درج کمپنیوں کے منافع میں اضافہ ہوا ہے اور اگر صرف گذشتہ مالی سال کے اعداد و شمار کو دیکھا جائے تو لسٹڈ کمپنیوں کے منافع میں دس کھرب روپے سے زیادہ کا اضافہ دیکھنے میں آیا لیکن اس کے باوجود اگر سٹاک مارکیٹ گر رہی ہے تو اس کی وجہ معاشی محاذ پر شرح سود میں اضافہ اور قدر میں کمی کا شکار پاکستانی کرنسی ہے۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: ڈاکٹر واسع جمیل۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)