پاکستان میں دنیا کا چوتھا بڑا نہری نظام ہے‘ جو زرعی مقاصد یعنی آبپاشی کے لئے استعمال میں لایا جاتا ہے۔ چین بھارت اُور امریکہ کے بعد یہ نہری نظام زراعت کے شعبے میں ریڑھ کی ہڈی جیسی کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔ پاکستان دنیا میں کپاس پیدا کرنے والا چوتھا بڑا ملک ہے۔ پاکستان دنیا میں گنا پیدا کرنے والا چوتھا بڑا ملک ہے۔ پاکستان دنیا میں دودھ کی پیداوار کے لحاظ سے پانچواں بڑا ملک ہے۔ پاکستان کھجور کی پیداوار کے لحاظ سے دنیا کا چھٹا بڑا ملک ہے اُور پاکستان گندم کی پیداوار کے لحاظ سے دنیا کا آٹھواں بڑا ملک ہے۔امریکہ کے محکمہئ توانائی (انرجی انفارمیشن ایڈمنسٹریشن) کے مطابق ”پاکستان میں 9 ارب بیرل سے زیادہ تیل موجود ہے۔“ اگر پاکستان میں 9 ارب بیرل تیل موجود ہے تو یہ ملک کی 45 سال کی ضروریات پوری کرنے کے لئے کافی ہے۔ اِسی طرح پاکستان میں گیس کے ذخائر 105 کھرب کیوبک فٹ بتائے جاتے ہیں جو ملکی ضروریات کے لئے 58 سال تک کے لئے کافی ہیں۔بلوچستان میں ”ریکوڈیک (Reko Diq)“ نامی مقام پر 5.9 ارب ٹن کاپر (copper) اُور 41.5 ملین اُونس سونے (gold) کے ذخائر موجود ہونے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ ریکوڈک دنیا کی چند بڑی کانسی (کاپر) اُور سونے کے ذخائر میں سے ایک ہے۔ اِسی طرح چنیوٹ‘ نوکنڈی‘ ہری پور اُور کالاباغ کے قریب 1.5 ارب ٹن لوہے کے ذخائر ہیں۔ پاکستان میں لائم سٹون (limestone) کے بھی ذخائر ہیں جو کھیوڑا‘ ڈانڈو‘ ڈیرہ غازی خان‘ نوشہرہ‘ کوہاٹ اور ہرنائی میں ہیں۔ پاکستان میں دنیا کا دوسرا بڑا نمک کا ذخیرہ ہے۔ پاکستان میں پانی سے بجلی پیدا کرنے کے امکانات 60 ہزار میگاواٹ سے زیادہ ہیں جن میں سے صرف 7 ہزار میگاواٹ حاصل کی جا رہی ہے۔ اِسی طرح پاکستان میں سیاحت کے وسیع امکانات موجود ہیں جنہیں ترقی دے کر قومی آمدنی میں اضافہ کیا جاسکتا ہے۔ پاکستان کی ساحلی پٹی 1 ہزار 46 کلومیٹر پر پھیلی ہوئی ہے۔پاکستان کی اکثریتی آبادی 22.8 سال عمر پر مشتمل ہے جو دنیا میں کسی بھی قوم میں نوجوانوں کی تعداد کے لحاظ سے سب سے زیادہ ہے۔ پاکستان میں آبادی میں اضافے کا تناسب کم ہو رہا ہے جبکہ کام کاج کرنے والوں کی اوسط عمر بڑھ رہی ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں یورپی ممالک 100 سال قبل تھے اُور اُنہوں نے اپنی افرادی قوت بالخصوص جوان افرادی وسائل سے بھرپور استفادہ کیا اور ترقی یافتہ ممالک میں شمار ہونے لگے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں چین قریب پچاس سال پہلے کھڑا تھا اُور چین کی قیادت نے افرادی قوت کے وسائل کا استعمال کرکے عالمی طاقت ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔ تصور کریں کہ سال 2030ء میں پاکستان میں کام کاج کرنے والوں کی تعداد کل آبادی کا 67 فیصد ہوگی جبکہ کوریا‘ جرمنی‘ جاپان اُور اٹلی میں کام کاج کرنے والے طبقے کی عمر کم ہو رہی ہے۔ اِسی طرح پاکستان کا جغرافیائی محل وقوع بھی انتہائی اہم ہے اور یہ جنوب ایشیا‘ وسط ایشا اور وسط ایشیا (مڈل ایسٹ) میں واقع ہے۔سال 2011ء میں عالمی مالیاتی ادارے (IMF) نے کہا تھا کہ کسی ملک کی اقتصادی ترقی وہاں کے سیاسی استحکام سے مشروط ہوتی ہے۔ ایک عالمی جائزے (study) سے معلوم ہوا ہے کہ سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے اقتصادی ترقی متاثر ہوتی ہے اور دنیا کے اُن ممالک نے زیادہ تیزی اور پائیداری سے ترقی کی ہے جہاں سیاسی استحکام پایا جاتا ہے۔پاکستان کے پاس وسائل کی کمی نہیں۔ یہاں قدرت کی جانب سے فراہم کردہ نعمتوں کا شمار ممکن نہیں لیکن اِن سے استفادہ کرنے کی صلاحیت پیدا کرنے اور بڑھانے پر خاطرخواہ توجہ نہیں دی جا رہی۔ پاکستان کو 2 بنیادی چیزوں کی ضرورت ہے۔ ایک سیاسی استحکام اور دوسرا خطے کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے اقتصادی حکمت عملی۔ پاکستان کے جو بھی جغرافیائی اہداف ہیں اُنہیں ایک مستحکم اقتصادی نظام کے بنا حاصل کرنا ممکن نہیں ہوگا اور یہی وہ مقام ہے جہاں اقتصادیات‘ جغرافیائی سیاست اور حکمت عملی ایک دوسرے سے مشروط و باہم منسلک دکھائی دیتے ہیں۔ اس وقت حکومت کی معاشی حکمت عملی درست سمت میں جا رہی ہے تاہم اب ضروری ہے کہ ان اقدامات کی خصوصی مانیٹرنگ ہو تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ ان کے نتائج بھی خاطر خواہ سامنے آئیں۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)
اشتہار
مقبول خبریں
حقائق کی تلاش
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
افغانستان: تجزیہ و علاج
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
جارحانہ ٹرمپ: حفظ ماتقدم اقدامات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
موسمیاتی تبدیلی: عالمی جنوب کی مالیاتی اقتصاد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
کشمیر کا مستقبل
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد پولیو جدوجہد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
درس و تدریس: انسانی سرمائے کی ترقی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد غربت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
مصنوعی ذہانت: عالمی حکمرانی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
سرمائے کا کرشمہ
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام