بھارت: تعصبات اور نفرتیں 

بھارت کی حکمراں جماعت ”بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی)“ عوام کی ایک تعداد کیلئے ناقابلِ برداشت بھی ہے یا ایسے بھارتی بھی ہیں جنہیں ’بی جے پی) سے خوف آتا ہے اور اِس خوفزدہ طبقے میں طلبہ‘ سماجی کارکن‘ صحافی‘ ماہرینِ تعلیم اور انسانی حقوق کے کارکن شامل ہیں جبکہ طویل فہرست میں مزاحیہ اداکار (کامیڈین) بھی شامل ہوچکے ہیں۔ اسی وجہ سے بھارت کے نوجوان کامیڈین منور فاروقی جہاں جاتے ہیں وہاں ان کے تمام شوز منسوخ ہوجاتے ہیں۔ گزشتہ ہفتے بنگلور میں ہونے والے اُن کے ایک شو کے منتظمین پولیس کی جانب سے ایک خط ملنے کے بعد پروگرام منسوخ کرنے پر مجبور ہوگئے۔ خط میں پولیس کی جانب سے کہا گیا تھا کہ اس شو سے نقص امن کا خطرہ پیدا ہوسکتا ہے۔ اس سے قبل دائیں بازو کی ہندوتوا جماعتوں ’ہندو جگرن سمیتی‘ اور ’جے شری رام سینا‘ نے اس شو کو منسوخ کروانے کے لئے پولیس سے رابطہ کیا تھا۔ یہ تسلسل کے ساتھ بارہواں واقعہ تھا جب منور فاروقی کو ان وجوہات کے باعث اسٹیج پر پرفارم کرنے سے روکا گیا۔ عام حالات میں تو آئین کی پاسداری کا حلف اٹھانے والی پولیس کو اس قسم کی اپیل کو نظرانداز کرکے آڈیٹوریم کے اطراف سیکورٹی میں اضافہ کردینا چاہئے تھا تاہم یہ عام حالات نہیں اور شاید اسی وجہ سے پولیس نے منور سے شو منسوخ کرنے کا کہا۔ حیرت ہے کہ پولیس نے منور کو گرفتار کیوں نہیں کیا۔ ستم ظریفی دیکھئے کہ منور گزشتہ سال تین مرتبہ بنگلور میں شو کرچکے ہیں۔ مدھیہ پردیش کی طرح کرناٹکا میں بھی بی جے پی کی حکومت ہے۔ وہاں منور کو ایک ایسے لطیفے پر ایک ماہ تک جیل کا سامنا کرنا جو انہوں نے بیان ہی نہیں کیا اور ان پر محض یہ الزام تھا کہ وہ مبیّنہ طور پر اسے بیان کرنا چاہتے تھے۔ بھارتی سپریم کورٹ کی جانب سے انہیں ضمانت ملنے کے بعد بھی وہ جیل سے رہا نہ ہوسکے کیونکہ اتر پردیش کے علاقے پریاگ راج میں بھی ان پر ’مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے‘ پر وارنٹ گرفتاری نکلا ہوا تھا۔ واضح رہے کہ اتر پردیش میں بھی بی جے پی کی حکومت ہے۔ تو آخر کامیڈین اور خاص طور پر منور فاروقی میں ایسی کیا بات ہے جو ہندوتوا کے سورماؤں کو پسند نہیں ہے؟ کامیڈین تو اس بھارتی ثقافت کا حصہ ہیں۔ مہاراشٹرا میں ہونے والے تماشوں میں ہمیشہ ایک مسخرہ ہوتا ہے‘ اس کے علاؤہ رام لیلا کے کھیل میں بھی گاؤں کے کامیڈین ذومعنی لطیفے کہتے ہیں۔  تو آخر ہندو تہذیب کا خود ساختہ حامی یہ سنگھ نظام مزاح کے خلاف کیوں ہے؟ منور فاروقی کو نشانہ بنانے میں ایک اہم بات تو یہی ہے کہ وہ مسلمان ہے اور ہندوتوا کے دائیں بازو کے افراد مسلمانوں کو دیوار سے لگانا چاہتے ہیں۔ یہ مبالغہ نہیں ہے بلکہ ہر اس شخص کے سامنے یہ بات واضح ہے جس نے گزشتہ سات برس میں تعصب کو بڑھتے اور پھلتے پھولتے دیکھا ہے۔ مختلف ریاستوں میں بی جے پی حکومت نے یا تو اسے نظر انداز کیا یا پھر ان سر پھرے افراد اور گروہوں کے اقدامات کی حمایت کی۔ دوسری جانب پولیس بھی بخوشی انہی کا ساتھ دیتی ہے۔ شاید کامیڈین سے اس وجہ سے خوف کھایا جاتا ہے کہ وہ مذاق اڑانے اور طنز و طعنوں کے ذریعے ہندوتوا کی مضحکہ خیزی کی نشاندہی کرتے ہیں۔ منور فاروقی نے اپنے ایک لطیفے میں کہا تھا کہ جوناگڑھ کے لوگ اتنے سست ہیں کہ وہ کسی دنگے میں بھی شامل نہیں ہوتے‘ یہ اس وقت کی بات ہے جب سال 2002ء میں باقی گجرات میں آگ لگی تھی اور سینکڑوں لوگ مارے جارہے تھے جن میں اکثریت مسلمانوں کی تھی۔ اس قسم کے لطیفے فرقہ پرست گروہوں کو تعصب کا آئینہ دکھاتے ہیں اور یہی بات انہیں ناپسند ہے۔ ہندوتوا کا نظام بحث یا سوال کرنے کو پسند نہیں کرتا ہے۔ غور کریں کہ کس طریقے سے اہم مسائل پر پارلیمنٹ میں بحث ہی نہیں ہوتی یا آزاد میڈیا کو کیسے خاموش کروایا جاتا ہے۔ وزیرِاعظم نے سات سالوں میں ایک بھی پریس کانفرنس نہیں کی اور وہ گجرات میں بھی صحافیوں سے اتنے ہی محتاط رہا کرتے تھے۔ شور مچانے والے بی جے پی کے حامی ٹی وی چینل اور کچھ اخبارات کی خوب مدد کی جاتی ہے جبکہ دیگر کو روک ٹوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بھارت کے قانون ساز ایوان (پارلیمنٹ) کے گزشتہ پانچ اجلاسوں میں میڈیا کوریج کی اجازت نہیں دی گئی۔ ان میں وہ حالیہ اجلاس بھی شامل تھا جس میں زرعی قوانین کو بغیر کسی بحث کے منسوخ کردیا گیا۔ دراصل ان سب اقدامات کے پیچھے سوال پوچھے جانے اور چیلنج کئے جانے کا خوف ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ٹیلی ویژن پروگرامات میں حزبِ اختلاف کے ترجمانوں کو چیخ چلا کر خاموش کروانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ کوئی ایسی جماعت جس کے پاس بھاری اکثریت موجود ہے اس قدر عدم تحفظ کا شکار کیوں ہے؟ شاید کبھی سماجی ماہرین اس گتھی کو حل کرلیں۔ کامیڈین منور فاروقی نے کہا ہے کہ وہ اب مزید پرفارم نہیں کریں گے یعنی انہوں نے اپنے شوق اور پیشے کو ترک کردیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ نفرت جیت گئی۔ منور کے ساتھ جو سلوک روا رکھا گیا اس نے نہ صرف انہیں خاموش کردیا بلکہ دیگر کامیڈینز پر بھی اس کا اثر پڑا ہے۔ ان میں سے اکثر نے تو عوامی پرفارمنس ترک کردی ہیں اور دیگر نے نسبتاً ’محفوظ‘ موضوعات کا انتخاب کرلیا ہے۔  یہ صورتحال دیکھ کر بھارت کے سیکولر ہونے کا دعویٰ کرنے والے دانشوروں کا سر شرم سے جھکا دکھائی دے رہا ہے۔(بشکریہ: ڈان۔ تحریر: سدہارت بھاٹیہ۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)