قومی بچت کی 

پاکستانی بحیثیت مجموعی نہ تو اپنے حصے کا ٹیکس ادا کرنا پسند کرتے ہیں اور نہ ہی قومی بچت کی عادت پائی جاتی ہے۔ اکثر کی حالت یہ ہے کہ یہ آمدنی سے پیسے بچا کر ٹیکس ادا کرتے ہیں چنانچہ ہمارے لئے سب سے پہلے اپنی آمدنی کے رجحان کا جائزہ لینا ضروری ہے۔2018-19ء میں سامنے آنے والے جائزے کے مطابق پاکستانیوں کی اوسط سالانہ گھریلو آمدن اکتالیس ہزار پانچ سو پینتالیس روپے ہے جو سال 2001-02ء میں سات ہزار ایک سو اڑسٹھ روپے تھی۔ مطلب یہ کہ گھریلو آمدن میں اوسط سالانہ اضافے کی شرح دس فیصد سے زیادہ رہی۔ اس عرصے کے دوران ہر پانچ میں سے ایک غریب کی آمدن چار ہزار سے بڑھ کر تیئس ہزار تک پہنچ چکی ہے یعنی دس فیصد سے زائد کا سالانہ اضافہ ہوا۔ اسی طرح ہر پانچ میں سے ایک امیر ترین گھرانوں کی آمدن گیارہ ہزار تین سو ساٹھ روپے سے بڑھ کر ساڑھے تریسٹھ ہزار روپے پر پہنچ گئی یعنی یہ بھی دس فیصد کا سالانہ اضافہ ہوا۔ اسی عرصے میں مہنگائی میں سالانہ اضافے کی اوسط شرح سات اعشاریہ نو رہی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس عرصے میں مہنگائی کی کٹوتیوں کے بعد بچنے والی حقیقی آمدنیوں میں اوسط کے اعتبار سے اضافہ ہوا ہے۔ یاد رہے کہ پاکستان تقریباً تین کروڑ چالیس لاکھ گھرانوں پر مشتمل ہے۔ اگر مذکورہ بالا اعداد و شمار آپ کے تجربے سے مماثلت نہیں رکھتے تو آپ وہ خوش قسمت ہیں جو گھرانوں کے پانچویں حصوں سے ایک اعلیٰ حصے سے تعلق رکھتے ہیں۔ اگر مذکورہ سروے میں دس یا ایک فیصدی لحاظ سے اعداد وشمار پیش کیے جاتے تو کئی قارئین خود کو پاکستان کے دس یا پانچ فیصد امیر ترین گھرانوں میں شمار کرتے۔ یہاں یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ بظاہر نظر آنے والی کم گھریلو آمدنیوں کو کمانے والا کوئی فرد واحد نہیں تھا۔ ایک اوسط گھرانہ چھ اعشاریہ چوبیس افراد پر مشتمل تھا اور ایک گھرانے میں کمانے والوں کی تعداد ایک اعشاریہ چھیاسی فیصد تھی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ گھریلو آمدن کے مقابلے میں کمانے والے ایک فرد کی اوسط آمدن کم رہی۔ پاکستان میں قومی بچت کی کم شرح سے متعلق ہم سب جانتے ہیں جس کا 2018-19ء کی مجموعی قومی پیداوار میں حصہ 10.8 فیصد تھا مگر چند ہی لوگ یہ جانتے ہوں گے کہ اسی سال ماہانہ گھریلو کمائی میں سے نقدی یا ڈیپازٹس کی صورت میں اوسط ماہانہ بچت کی شرح چار اعشاریہ فیصد رہی۔ اگر ہم جیولری اور دیگر مالی اثاثوں کی خریداری پر ہونے والے اخراجات کو جوڑ دیں تو 2018-19ء میں گھریلو بچت کی شرح 2001-02ء میں رہنے والی چھ اعشاریہ تین فیصد شرح کے مقابلے میں آٹھ اعشاریہ آٹھ فیصد بنتی ہے۔ اگرچہ اس عرصے کے دوران ہماری بچت کی شرح بڑھی ہے لیکن اس معاملے میں ہماری بہتری کی رفتار بہت زیادہ سست رہی ہے۔ ہمارے ہاں بچت کا رجحان زیادہ نہیں پایا جاتا۔ اس کا تعلق ہماری میکرو اکنامک پالیسیوں میں موجود بے ترتیبی سے بھی ہے کیونکہ ان پالیسیوں میں بچت سے زیادہ خرچ کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے۔ آپ سود کی شرح میں موجودہ اور ماضی کے رجحانات پر ہی نگاہ ڈال لیجئے۔ جب بھی شرح میں اضافہ ہوتا ہے تو احتجاجی مظاہروں کا شور شروع ہوجاتا ہے حالانکہ اس اضافے سے بچت کرنے والوں کو ہی فائدہ پہنچتا ہے۔ ہماری توجہ کا مرکز ہمیشہ ’غریب‘ قرض دار ہوتے ہیں حالانکہ وہ شرح کے اضافے سے بہت زیادہ متاثر نہیں ہوتے بلکہ ان کے منافع میں سے معمولی حصہ ہی کٹتا ہے۔ ڈالر کو سستا رکھنے کا ہمارا شوق بھی بچت کے بجائے خرچ کرنے کو فروغ دیتا ہے۔ کیا ہم بچت کرنے والوں کو مناسب معاشی مراعات دے رہے ہیں؟ بینک میں پیسے جمع کروانے والوں کے منافع کی شرح پر ہی نظر دوڑا کر دیکھ لیجئے۔ سال 2001-02ء سے 2019-19ء تک اس میں صرف چار فیصد کا اوسط اضافہ ہوا۔ اب اس کا موازنہ اسی عرصے کے دوران رہنے والی افراطِ زر کی سالانہ سات اعشاریہ نو فیصد کی اوسط شرح سے کیجئے اور (یہ بھی یاد رہے کہ 2008ء سے 2012ء کے بیچ افراط ِزر دو ہندسوں میں تھی) چنانچہ بینک میں رقم جمع کروانے والوں کیلئے حقیقی شرح بڑے فرق کے ساتھ منفی رہیں۔ پھر کم بچت پر رونا کیسا؟ اگر ہم درست شرح مبادلہ اور شرح سود رکھیں تو ان سے افراط ِزر کو کم رکھنے کے ساتھ بچت کو فروغ دینے میں بھی مدد ملے گی تاہم ہمارے پاس خرچ کرنے کی نفی اور بچت (مالی پالیسیوں) کے فروغ کیلئے دیگر پالیسیاں بھی موجود ہیں۔ پاکستان میں گھرانے ایف بی آر کو بلاواسطہ اور بالواسطہ ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ سیلز ٹیکس اور کسٹم ڈیوٹیز گھرانوں کی جانب سے خریدی جانے والی مصنوعات کی قیمتوں میں ضم ہوتی ہیں چنانچہ مذکورہ سروے صرف انکم ٹیکس اور دیگر بلاواسطہ ٹیکسوں پر ہونے والے اخراجات کے تخمینے ہی فراہم کرسکتا ہے۔ ہمارے گھرانے کتنے ٹیکسوں کی ادائیگی کرسکتے ہیں؟ 2018-19ء میں پاکستان کے ایک اوسط گھرانے نے ماہانہ صرف 144.12 روپے بلاواسطہ ٹیکس ایف بی آر کو ادا کیا۔ یہ گھریلو آمدن کے ایک فیصد کے آدھے حصے سے بھی کم رقم بنتی ہے! اگر 2001-02ء کی بات کریں تو اس وقت آمدن کا 0.38 فیصد حصے کے برابر ٹیکس ادا کیا گیا تھا۔ دنیا میں شاید ہی ایسے ملک ہوں گے جہاں کے گھرانے اس رقم سے کم بلاواسطہ ٹیکسوں کی ادائیگیاں کرتے ہوں گے۔ مثلاً امریکہ میں ایک اوسط گھرانے نے 2019ء میں اپنی آمدن کا 13.7فیصد حصہ بلاواسطہ ٹیکسوں کی صورت میں ادا کیا تھا یقینا یہ موازنہ غیر منصفانہ ہے تاہم یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہمارے گھرانے پورا ٹیکس دینے سے بچ جاتے ہیں مگر اسے بھی آدھا سچ قرار دیا جاسکتا ہے کیونکہ ٹیکسوں کی کم وصولی کی وجہ ہماری ٹیکس پالیسیاں ہیں۔ ہمارے مالی حکام اکثر و بیشتر انکم ٹیکس شرح کو گھٹانے اور انکم ٹیکس کی چھوٹ کا درجہ بڑھانے میں کنجوسی نہیں کرتے۔ ہمارے وزرائے خزانہ کے ذہنوں پر انکم ٹیکس ادا کرنے والوں کو ’ریلیف‘ کی فراہمی کی فکر ہمیشہ سے سوار رہی ہے۔ ٹیکسوں کی ادائیگی ہی انفرا  اسٹرکچر کی دستیابی کو یقینی بنانے کا واحد ذریعہ ہے۔ ہم ایک طرف تو اپنی حکومتوں سے بہتر معیار کی عوامی مصنوعات کی فراہمی کا تقاضا کرتے ہیں لیکن دوسری طرف ہم بلاواسطہ ٹیکس ادا کرنے میں کافی ہچکچاتے ہیں  (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: ریاض ریاض الدین۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)