ماحولیاتی تنوع اور ترجیحات

پاکستان کی ساحلی پٹی پر ”گڈانی“ کا علاقہ ناقابل استعمال (ناکارہ) قرار دیئے گئے بحری جہازوں کو توڑنے کا مرکز ہے اور یہاں بڑے پیمانے پر ایسی سرگرمیاں سارا سال جاری رہتی ہیں جن میں بحری جہازوں کے ٹکڑے کئے جاتے ہیں اور اُن سے لوہا و دیگر قابل استعمال اشیا الگ کی جاتی ہیں لیکن یہ صنعتی سرگرمی سمندری حیات سمیت ماحول کے لئے خطرہ بھی ہے۔ حال ہی میں کوسٹا رومینٹکا نامی اٹلی کا معروف جہاز گڈانی آیا جسے سیاحتی مقاصد کیلئے خریدا گیا تھا۔ یہ سیاحتی مقاصد واضح نہیں لیکن کہا جارہا تھا کہ یہ جہاز پاکستان میں ایک سیاحتی روٹ کا اضافہ کرے گا۔ اس طرح سیاح پاکستان کی ساحلی پٹی کو دیکھ سکیں گے شاید کچھ لوگوں کیلئے یہ ایک اچھا قدم ہوتا۔ ظاہر ہے کہ اگر امیر ممالک میں کروز شپ ہوتے ہیں تو غریب ممالک میں بھی ہونے چاہئیں۔ خوش قسمتی سے بدانتظامی ماحول کیلئے فائدہ مند رہتی ہے اور اس جہاز کے حوالے سے بھی ایسا ہی ہوا۔ جس وقت یہ جہاز کراچی لایا جارہا تھا اس وقت یہ کہا گیا تھا کہ اب پاکستانیوں کو بھی کروز شپ کی تفریح میسر آئے گی تاہم کراچی بندرگاہ کی انتظامیہ اس حوالے سے بہت زیادہ پُرجوش نہیں تھی۔ بندرگاہ حکام نے اس حوالے سے واضح کردیا تھا کہ بندرگاہ میں اس جہاز کو پارک کرنے کی کوئی جگہ نہیں (یاد رہے کہ یہ چودہ منزلہ جہاز جسے اب گڈانی میں پارک کیا گیا ہے)۔ یہاں جہازوں کی پارکنگ کے ایسے مسائل موجود ہیں (شاید گاڑیوں کی پارکنگ کا مسئلہ اب جہازوں تک بھی پہنچ گیا ہے) کہ اس جہاز کے لئے کوئی برتھ مل ہی نہیں سکتی تھی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سیاحتی مقاصد کے لئے استعمال کرنے اور کسی بندرگاہ پر لے جانے کے بجائے اسے شپ بریکنگ یارڈ لے جایا گیا ہے جہاں اس جہاز کو کاٹ کر بیچ دیا جائے گا۔ جہاز کا سامان (جہاز کی اندرونی تصاویر میں کھانے کی میزیں‘ ہوٹلوں کی کرسیاں اور دیگر اشیا‘ پینٹنگ‘ پول ٹیبل اور ٹریڈمل وغیرہ نظر آرہی ہیں) فروخت کردیا جائے گا۔ ممکنہ طور پر جہاز کے نئے مالک کے لئے جہاز کا لوہا زیادہ منافع بخش ثابت ہوگا۔ بہرحال میں تو اس جہاز کے انجام سے مطمئن ہوں۔ آج سے تقریباً دو سال قبل جب کورونا وائرس کا آغاز تھا اس وقت اس وائرس کو پھیلانے میں ان کروز جہازوں کا بھی ہاتھ تھا۔ مجھے آج بھی وبا کے وہ ابتدائی دن یاد ہیں جب ڈائمنڈ پرنسس نامی جہاز جاپان کی یوکوہاما بندرگاہ پر لنگر انداز تھا۔ اس جہاز پر ہزاروں افراد سوار تھے۔ ایک ٹوئٹر صارف نے جہاز کی تصاویر شیئر کی تھیں جس میں دکھایا گیا تھا کہ دن میں تین اوقات مسافروں کے کمروں کے باہر کھانا رکھ دیا جاتا تھا۔ وہ کھانا اور انٹرنیٹ ہی باہر کی دنیا سے ان مسافروں کا رابطہ تھا اور یہ صورتحال کئی ہفتوں تک برقرار رہی۔ دنیا بھر میں کروز جہازوں کو انہی مشکلات کا سامنا تھا۔ بلآخر بیمار مریضوں کو جہاز سے اترنے کی اجازت مل گئی۔ کچھ لوگوں کے مطابق یہی فیصلہ جاپان میں کورونا کے پھیلاؤ کی وجہ بنا۔ جب دنیا بھر میں کروز جہازوں پر موجود مسافروں کو جہاز سے اترنے اور انہیں زمین پر موجود قرنطینہ مقامات پر جانے کی اجازت دے دی گئی تب بھی غریب ممالک سے تعلق رکھنے والے عملے کے اراکین جو مسافروں کی خدمت پر مامور تھے وہ پھنسے رہے۔ بعض اوقات کسی سانحے کی وجہ سے رونما ہونے والے حالات اصل سانحے سے زیادہ افسوسناک ہوتے ہیں پھر ہمارے سامنے آلودگی اور ماحول کی تباہی کا مسئلہ بھی ہے۔ ایک کروز جہاز ایک دن میں دس لاکھ گاڑیوں کے برابر آلودگی کے ذرات اور پینتیس لاکھ گاڑیوں کے برابر سلفر ڈائی آکسائیڈ خارج کرتا ہے۔ کروز جہازوں پر موجود لوگ بہت کھاتے پیتے ہیں (لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہاں بہترین کھانے پیش کئے جاتے ہیں بلکہ بہت سارے کھانے پیش کئے جاتے ہیں۔ وہاں کے بوفے سستے کھانوں‘ بہت ساری سلاد‘ سستے پنیر‘ تلی ہوئی اشیا اور ہر اس چیز سے پُر ہوتے ہیں جنہیں مہنگے داموں اور بڑے پیمانے پر تیار کیا جاسکتا ہو۔ ظاہر ہے کہ لوگ جو کچھ کھاتے ہیں وہ خارج بھی کرتے ہیں اور اس سارے فضلے کو سمندر میں ڈال دیا جاتا ہے۔ اس کے علاؤہ بھی کئی طرح کا ٹھوس فضلہ ہوتا ہے جس میں بوتلیں‘ رومال‘ ڈائپر‘ پیکنگ کا سامان‘ کاغذ اور بہت کچھ شامل ہوتا ہے۔ آسان لفظوں میں کہا جائے تو کوئی ایک کروز جہاز بھی کسی سمندری راستے کو گندا کرنے کیلئے کافی ہوتا ہے۔(بشکریہ: ڈان۔ تحریر: رافعہ ذکریا۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)