تاریخ کے سینے میں بہت سے راز دفن ہیں جیسا کہ سعودی عرب کے بادشاہ عبد العزیز نے امریکی صدر فرینکلن ڈی روزویلٹ سے کہا تھا ”آخر عربوں نے یورپی یہودیوں کو کیا نقصان پہنچایا ہے؟ یہ تو جرمن تھے جنہوں نے ان کے گھر اور جانیں ہتھیا لیں۔ جرمنوں کو اس کی قیمت ادا کرنے دیں۔“ کسی بھی سعودی بادشاہ اور امریکی صدر کے درمیان ہونے والی یہ پہلی ملاقات چودہ فروری اُنیس سو پینتالیس کو نہر سوئز میں امریکی جنگی بحری جہاز کوئنسی پر ہوئی تھی۔ یہ وہ دور تھا جب دوسری جنگ عظیم اپنے انجام کے قریب تھی۔ اگست میں امریکی صدر جو بائیڈن سے واشنگٹن میں ملاقات کرتے ہوئے اسرائیلی وزیر اعظم نفتالی بینیٹ نے واضح کیا کہ اسرائیل مزید بستیاں تعمیر کرے گا اور 1967ء میں قبضہ کئے گئے علاقوں پر کسی فلسطینی ریاست کے قیام کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس بیان پر عمل کرتے ہوئے اسرائیل نے مغربی کنارے اور مقبوضہ مشرقی یروشلم میں ایک ہزار نئی بستیوں کی تعمیر کے ٹینڈر جاری کئے۔اسرائیل کے اس اقدام پر بائیڈن انتظامیہ کو بھی امریکہ میں موجود طاقتور اسرائیلی لابی کے خلاف جاتے ہوئے یہ بیان جاری کرنا پڑا کہ مشرقی کنارے میں اسرائیلی بستیوں کی تعمیر سے اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان امن کی کوششوں کو ٹھیس پہنچے گی۔ اسرائیل نے عالمی برداری کا اصل امتحان تو مئی کے مہینے میں لیا جب اس نے گیارہ دنوں تک غزہ میں تباہی مچائے رکھی اس دوران رہائشی اور کاروباری عمارتوں کو زمین بوس کیا گیا۔ ان میں ایک ایسی عمارت بھی شامل تھی جس میں میڈیا (بشمول الجزیرہ) کے دفاتر بھی موجود تھے۔ اسرائیلی حملوں میں 39خواتین اور 66بچوں سمیت تقریباً ڈھائی سو افراد ہلاک ہوئے۔ اس دوران اسرائیل نے اوسطاً پچیس منٹوں میں ایک سو پچیس بم گرائے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ غزہ میں ہونے والے قتل عام کا عالمی برادری پر کوئی اثر نہیں پڑا جس کا ثبوت اسرائیل‘ امریکہ اور خلیجی ریاستوں (بحرین اور متحدہ عرب امارات) کی جانب سے گزشتہ ماہ بحیرہ احمر میں کی جانے والی مشترکہ بحری مشقیں ہیں۔ اگر باقی دنیانے فلسطین کو بھلا دیا ہے تو کوئی ہے جسے اب بھی فلسطین یاد ہے۔ شاید یہ سننے میں عجیب لگے لیکن اینجلا مرکل نے بطور جرمن چانسلر اپنے آخری دورہئ اسرائیل میں میزبانوں کو یہ یاد دلوایا کہ انہیں ایک فلسطینی ریاست کے قیام کو نظرانداز نہیں کرنا چاہئے۔ ایک اسرائیلی تھنک ٹینک سے بات کرتے ہوئے مرکل کا کہنا تھا کہ متحدہ عرب امارات کے سفارتی اقدامات کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اسرائیل کے لئے فلسطینیوں کے ساتھ امن معاہدے کی ضرورت ختم ہوگئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’ہمیں فلسطینیوں کے لئے زندگی گزارنے کے حق کو تسلیم کرنا چاہئے۔ اسی وجہ سے کسی بھی صورت میں دو ریاستی حل کو نظرانداز نہیں کرنا چاہئے پھر چاہے نئی بستیوں کی تعمیر سے یہ کام کتنا ہی مشکل کیوں نہ ہوجائے‘۔ تو دیکھنا یہ ہے کہ کیا کوئی اور جرمنوں کی مدد کرے گا (بشکریہ ڈان۔ تحریر: علی صدیقی۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)
اشتہار
مقبول خبریں
حقائق کی تلاش
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
افغانستان: تجزیہ و علاج
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
جارحانہ ٹرمپ: حفظ ماتقدم اقدامات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
موسمیاتی تبدیلی: عالمی جنوب کی مالیاتی اقتصاد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
کشمیر کا مستقبل
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد پولیو جدوجہد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
درس و تدریس: انسانی سرمائے کی ترقی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد غربت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
مصنوعی ذہانت: عالمی حکمرانی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
سرمائے کا کرشمہ
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام