گیس بحران

ملک بھر میں گیس کی قلت کے باعث معمولات ِزندگی متاثر ہونے کی کہانیاں ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا پر عام (وائرل) ہیں۔ گھریلو صارفین سے لے کر گیس کے کاروباری اور صنعتی صارفین اور صنعت کار اپنے اپنے مسائل و مشکلات کا ذکر کر رہے ہیں جبکہ گیس کی فراہمی میں رکاوٹیں نہ تو وقتی ہیں کہ رواں یا آئندہ برس حل ہو جائیں گی بلکہ مشاہدہ یہ ہے کہ ہر سال گیس کی قلت اور اِس قلت کی شدت میں اضافہ ہوتا رہے گاجب تک ان مسائل پر توجہ نہیں دی جاتی‘ صارفین کی بات سن کر اطمینان کا احساس تو ہو سکتا ہے لیکن  اس کیلئے ٹھوس کوششیں لازمی ہیں۔ حکومت کہہ رہی ہے کہ گھریلو اور چھوٹے پیمانے پر تجارتی استعمال کے لئے تقسیم کے معیارات مقرر اور نافذ کرنے میں ابھی کچھ وقت لگے گا۔ کراچی کے تاجروں نے اعلان کیا ہے کہ وہ سوئی سدرن گیس کمپنی کے ہیڈ آفس کے باہر نان ایکسپورٹ جنرل انڈسٹریز کو سپلائی کی معطلی کے خلاف احتجاج اور دھرنا دیں گے۔ دیگر شہروں میں بھی ایسی ہی احتجاجی صورتحال پیدا ہو رہی ہے جس میں گھریلو اور صنعتی استعمال کے لئے گیس دستیاب نہیں ہے۔ ہر کوئی یہ سوچ رہا ہے کہ آخر گیس کہاں گئی ہے یا اگر نہیں ہے تو حکومت کے پاس اس مسئلے کا حل کیا ہے اور اِس سلسلے میں خاطر خواہ یا بروقت اقدامات کیوں نہیں کئے گئے جس پر کئی ماہرین گزشتہ کئی مہینوں سے روشنی ڈال رہے ہیں اور مثالوں سے یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ غلط منصوبہ بندی کے باعث گیس بحران پیدا ہوا ہے۔اس وقت اگر چہ حکومت کی بھر پور کوشش ہے کہ گیس کی کمی سے عام صارفین کو تکلیف نہ ہو اور اس مقصد کیلئے مختلف اقدامات اٹھائے گئے ہیں پھر بھی یہ ضروری ہے کہ حکومت استعمال کی تفصیلات عام کر کے اس پورے معاملے کو ہرممکن حد تک شفاف بنائے تاکہ صارفین طلب اور رسد کی مجموعی صورتحال کا جائزہ لے سکیں جو اس وقت مبہم ہے۔ اس مسئلے کے کم از کم دو ممکنہ لیکن عارضی حل نظر آتے ہیں۔ ایک حکومت ہفتے میں ایک بار ایک مخصوص وقت پر گیس معطل کرنے پر غور کر سکتی ہے اور اس کا اعلان پہلے سے ہونا چاہئے تاکہ صارفین کو معلوم ہو سکے کہ انہیں کب گیس سپلائی نہیں ملے گی تاکہ اس کے مطابق وہ اپنی تیاری کریں۔ دوسرا حکومت ملک کو خاص طور پر بڑے شہروں کو بغیر کسی رکاوٹ کے آپریشنل رکھنے کے لئے بہتر لوڈ مینجمنٹ کو نافذ کرنا چاہئے۔ گیس کی فراہمی پر غیریقینی صورتحال اُن صارفین کے لئے مزید مسائل پیدا کرتی ہے جو لاعلمی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اس طرح کے شبہات متاثرہ علاقوں میں زندگی کی مجموعی سرگرمیوں کو متاثر کرتے ہیں۔ ایکسپورٹ پر مبنی صنعتوں کو فعال رکھنے کے لئے گھریلو چولہے اور عام صنعتوں کو بند کرنے کا فیصلہ کاروباری اور گھریلو صارفین کے درمیان تصادم کو جنم دے سکتا ہے۔ عام صارفین کو سپلائی معطل کرنا غیر منصفانہ ہے جو معیشت کا ایک لازمی حصہ ہیں اور انہیں سپلائی چین میں اپنا حصہ ملنا چاہئے۔ گیس کی فراہمی پورے ملک میں بحال رہنے کی ضرورت ہے اور اس کیلئے عام شہریوں کو نقصان نہیں اُٹھانا چاہئے۔