مسلم لیگ نواز ’ووٹ کو عزت دو‘ کا نعرہ بھلا کر ’کام کو عزت‘ دینے کی بات کررہی ہے۔ ظاہر ہے کہ ووٹ میں دلچسپی رکھنے والے خاندان کے آدھے افراد تو ذاتی مصروفیات میں پھنسے ہوئے تھے۔ شاید اسی وجہ سے پارٹی نے سوچا کہ اب کام کو بھی کچھ اہمیت دے دی جائے۔ اس کام کے لئے انہوں نے جس ’کام‘ کو چنا وہ کوئی اور نہیں بلکہ کراچی کا گرین لائن بس سروس منصوبہ تھا جس کا وزیرِاعظم نے گزشتہ ہفتے افتتاح کیا ہے لیکن وزیرِاعظم کی جانب سے منصوبے کا افتتاح کرنے اور فوٹو شوٹ کروانے سے ایک دن قبل مسلم لیگ (نواز) کی قیادت نے کراچی پہنچ کر منصوبے کا علامتی افتتاح کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس موقع پر رینجرز کے ساتھ ہونے والی دھکم پیل سے احسن اقبال زخمی ہوگئے۔ اگلے دو چار دن تک ٹی وی پروگرامات میں اس حوالے بات ہوتی رہی کہ کس جماعت نے اس منصوبے پر کتنا کام کیا ہے اور کس جماعت کو اس منصوبے کا حقیقی کریڈٹ جاتا ہے ہم ذرا کچھ دیر کے لئے اس موضوع کو ایک جانب کرکے مسلم لیگ (نواز) کے حوالے سے بات کرتے ہیں۔ کراچی کے حوالے سے مسلم لیگ (نواز) کے ہنگامے نے مجھے یاد کروایا کہ مسلم لیگ (نواز) تو وہ جماعت ہے جس نے خود کو اور اپنے ووٹرز کو ’کام‘ پر یقین رکھنے والا بتایا ہے۔ یہ ووٹ کو عزت دو والا نعرہ واقعی نیا ہے اور سیاسی تجزیہ کار بھی اس کی نشاندہی کرچکے ہیں اور پھر ہم نے دیکھا کہ ایک سال کے اندر اندر پنجاب جیسے صوبے میں جہاں لوڈ شیڈنگ سنگین صورت اختیار کرچکی تھی وہاں یہ گانا واقعی حقیقت میں بدلتا ہوا دکھائی دے رہا تھا۔ نواز لیگ کے حوالے سے یہ طریقہ قابلِ فہم بھی لگتا ہے کیونکہ اسے ہمیشہ ہی سیاسی مقابلے کا سامنا رہا ہے۔ جب اُنیس سو نوے میں اسے پہلی بار اقتدار میں لایا گیا تو اسے ایک ایسے پنجاب کا سامنا تھا جہاں پیپلزپارٹی بڑی جماعت تھی اور اس کی قریب چالیس فیصد ووٹوں پر گرفت تھی۔ یہاں نواز لیگ کو اپنے لئے جگہ بنانی تھی اور اس کام کے لئے انہوں نے سڑکوں کی تعمیر کے ذریعے ترقی کا سہارا لیا۔اس کی وجہ یہ تھی کہ چوہدریوں نے بھی مسلم لیگ (نواز) کی طرح ترقی پر توجہ دی تھی۔ دوہزار آٹھ کے انتخابات میں ان تینوں جماعتوں کو کم و بیش برابر ہی ووٹ ملے تھے۔ یہاں نواز لیگ کو مسلم لیگ (قائد اعظم) سے زیادہ کام کرکے دکھانا تھا اور یہ بھی ثابت کرنا تھا کہ وہ ان علاقوں کو ترقی دے سکتے ہیں جنہیں پیپلز پارٹی بھی ترقی نہیں دے کسی تھی۔دوہزارتیرہ کے عام انتخابات کے وقت تحریک انصاف بھی قوت بن چکی تھی بلکہ تجزیہ کار تو یہ بھی کہتے ہیں کہ شہباز شریف کی لیپ ٹاپ سکیم اور لاہور میٹرو بس منصوبے کا فیصلہ بھی دوہزارگیارہ میں مینارِ پاکستان پر تحریک انصاف کے بڑے جلسے کے بعد ہوا تھا۔ شاید ہر وقت خطرات پر نظر رکھنے والی جماعت کیلئے کام واقعی بہت اہم تھا۔ اکثر افراد اس بارے میں متفق ہیں کہ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت اس وجہ سے ہے کہ وہاں دیہی علاقوں میں کوئی متبادل موجود نہیں ہے۔ پیپلز پارٹی نے ایم کیو ایم کے زیرِ اثر شہری علاقوں کو بہت زیادہ توجہ بھی نہیں دی اور یوں کراچی کو صوبائی حکومت کی جانب سے ہمیشہ نظرانداز کیا جاتا رہا۔۔ بلاشبہ پی ٹی آئی اور نواز لیگ کے درمیان جاری بحث کتنی ہی عجیب کیوں نہ لگے لیکن یہ دوہزارآٹھ سے دوہزارتیرہ کی مدت میں کچھ عرصے برقرار رہنے والے ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے اتحاد سے بہت بہتر ہے۔ ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے اتحاد میں کوئی بھی دوسرے کو اپنے لئے خطرہ نہیں سمجھتا تھا اور دونوں ہی جماعتیں اپنے اپنے علاقوں میں اپنی حمایت برقرار رکھنے کے لئے کام کررہی تھیں۔ سخت الفاظ کا استعمال نہ کرنا یا خاموشی اختیار کرنا ہمیشہ ہی تہذیب کی علامت نہیں ہوتا بلکہ بعض اوقات یہ رضامندی کا اشارہ بھی ہوتا ہے۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: عارفہ نور۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)