افغانستان کے صوبہ گوہر کے دارالحکومت چاغچرن کے واحد ہسپتال کے غذائی قلت کے وارڈ کے باہر ماؤں اور بچوں کا ہجوم تھا جہاں بچوں کے لئے غذائیت بھری خوردنی اشیا تقسیم کی گئیں اور ہسپتال کے عملے کا کہنا ہے ’یہاں اندر کوئی جگہ (گنجائش) نہیں ہے۔‘ افغانستان میں بالعموم صحت کی صورتحال روز بگڑ رہی ہے اور گزشتہ چار پانچوں مہینوں سے ایسا ہی ہو رہا ہے جو گزشتہ برس کے مقابلے بالکل مختلف صورتحال ہے۔ افغانستان میں جنگ ختم ہو چکی ہے لیکن وہاں کی معشیت ڈوب رہی ہے اور ایسے کئی صوبے ہیں جہاں کے مرکزی ہسپتال ملک میں آنے والی تبدیلی سے نمٹنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ افغانستان کی سابقہ حکومت جس عالمی امداد کے سہارے کھڑی تھی وہ طالبان کی آمد سے بند ہو چکی ہے۔ ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر کو امریکہ منجمد کر چکا ہے۔ افغانستان کی کرنسی کی قدر گر چکی ہے۔ بینکوں نے رقم نکلوانے کی حد مقرر کر دی ہیں۔ ملک میں بیروزگاری اور مہنگائی بڑھ رہی ہے۔ افغان مائیں اپنے بچوں کے لئے فکرمند اور فریاد کناں ہیں کہ ’ہمارے پاس کچھ بھی نہیں‘ میرے بچے بیمار ہیں۔ ہمارے پاس دوائیاں نہیں ہیں۔ ہماری کوئی مدد کیوں نہیں کر رہا؟‘ ڈاکٹروں کے بقول ”مریضوں بچوں کی تعداد پچھلے سال کے مقابلے میں دگنی ہے اور افغان بچے خوراک کی سخت کمی کا شکار ہیں۔ اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ آنے والے مہینوں میں افغانستان میں ایک ملین بچے بھوک سے مر سکتے ہیں۔ہسپتال کے میل نیوٹریش وارڈ میں جگہ ختم ہو رہی ہے۔ ہر بستر پر دو بچے اور ان کی مائیں ہیں اور یہ تعداد کئی دفعہ وہاں تین تین بھی ہو جاتی ہے۔ یہاں درجہئ حرارت منفی دس سینٹی گریڈ تک گر جاتا ہے لیکن ہمارے پاس ہیٹر کیلئے چند گھنٹوں کی لکڑی ہے۔ پچھلے حکومت میں بھی ہسپتالوں کو وسائل کی کمی کا سامنا تھا لیکن کم از کم وزارت صحت وارڈ کو گرم رکھنے کیلئے ایندھن مہیا کر دیتا ہے۔ اب تمام فنڈز بند ہو چکے ہیں اور طالبان کے پاس ہسپتال کو دینے کیلئے کچھ نہیں ہے۔ ہسپتال میں جگہ کی کمی کی وجہ سے ایک بیڈ پر دو بچوں اور ان کو ماؤں کو رکھا جاتا ہے۔ وارڈ میں جو ایک ہیٹر ہے وہ بھی کسی عالمی رفاعی ادارے نے عطیہ کیا ہے۔ کچھ لوگ اس ہیٹر کو کچھ اور دیر چلانے کیلئے کوئی ادویات کی پیکنگ اس میں ڈالتے ہے تاکہ آگ کچھ اور منٹ تک جاری رہے۔افغانوں کے پاس علاج کیلئے رقم نہیں اور اِس غربت کی وجہ سے ماں اور بچے کی صحت متاثر ہو رہی ہے۔ کئی خاندان علاج معالجے کیلئے قرض لینے پر مجبور ہیں جس سے اُن کی غربت مزید بڑھ گئی ہے! ایسے ہی ایک خاندان کی کہانی ہے کہ جن کے پاس ہسپتال تک مریضہ کو لانے کیلئے ٹیکسی کا کرایہ جو کہ دس افغانی بنتا تھا وہ بھی نہیں تھے۔ وہ حاملہ خاتون کو گوشت اور دیگر ضروری غذائی ضروریات نہیں دے سکتے تھے بس کم مقدار میں دودھ پر ہی اِن کی گزربسر تھی اور ادویات بھی پوری نہیں ملتی تھیں۔ یا وہ ادھار پر لینی پڑتی تھیں۔ افغانستان میں ایسی مثالیں بھی سامنے آئی ہیں جس میں ہسپتال کے عملے نے اپنی جمع پونجی خرچ کر کے لوگوں کو علاج معالجے کی سہولیات فراہم کیں اور یوں سرکاری علاج گاہیں چل رہی ہیں! دنیا افغانستان کے دکھ کو سمجھ نہیں رہی اور یہی وجہ ہے کہ افغانستان کی خاطرخواہ امداد نہیں ہو رہی۔یہی وجہ ہے کہ افغانستان کے ڈاکٹروں نے عالمی برادری سے اپیل کی ہے اور پیغام دیا ہے کہ ”افغانستان نے اِس سے قبل بدترین خانہ جنگی کے دور میں بھی کبھی اس طرح کی صورتحال کا سامنا نہیں کیا۔ جب ہم افغانستان کی بات کرتے ہیں تو یہ وہاں کی صرف غذائی قلت ہی کی طرف اشارہ نہیں ہوتا بلکہ موسم سرما کے شروع ہوتے ہی نمونیا کے مریضوں میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ ہسپتالوں کے ایمرجنسی وارڈ بھرے ہوئے ہیں۔ وہاں ایندھن نہیں‘ گرم کپڑے بھی نہیں ہیں اور زندگی کی بنیادی ضروریات تک میسر نہیں۔ افغان اپنے ہی ملک میں بے گھر اور مہاجروں جیسی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ المیہ ہے کہ افغانستان میں خسرہ پھیل رہا ہے۔ ہسپتال کے پاس خسرہ کے مریضوں کی بڑھتی ہوئے تعداد کے علاج کیلئے وسائل نہیں۔ خسرہ سے بچاؤ کا ویکسنیشن پروگرام کورونا کی وبا اور طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے رک چکا ہے۔ ہسپتالوں میں ہر روز آکسیجن نہ ملنے کی وجہ سے اموات ہو رہی ہیں۔ افغان ہسپتالوں کو آکسیجن کے سلنڈروں کی ضروت ہے لیکن وہ بہت مہنگے ہیں۔ ایک سلنڈر پر پچاس ڈالر کی لاگت آتی ہے جو افغانستان کی معاشی صورتحال میں زندگی اور موت جیسا فرق ہے۔ در اصل یہاں خسرہ وارڈ کے باہر درجنوں خالی سلنڈر پڑے ہیں۔ ہسپتال کے پاس اپنی آکسیجن پیدا کرنے کے لئے مشین موجود ہے لیکن اسے چلانے کیلئے بجلی نہیں ہے۔ کئی افغان شہروں میں بجلی نہیں اور سوائے چند ایک گھروں کے جنہوں نے سولر پینل لگوا رکھے ہیں برقی رو کے بغیر شدید سردی کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ شہر کو بجلی مہیا کرنے والے پاور پلانٹ کو چلانے کیلئے بھی ایندھن نہیں ہے۔ ہسپتال کے پاس اپنے جنریٹرز ہیں لیکن وہ کافی نہیں ہیں۔ افغانستان کو اربوں ڈالر کی بیرونی امداد کے باوجود ہسپتالوں میں علاج معالجے کیلئے درکار آلات کی کمی ہے اور یہ صورتحال بہت خراب ہے کیونکہ ہر دن مزید آلات کی ضرورت پڑ رہی ہے۔ اِس صورتحال میں انٹرنیشنل کمیٹی آف ریڈ کراس (ہلال احمر) نے چھ مہینے کی ہنگامی امداد کی یقین دہانی کرائی ہے جس پر افغان ڈاکٹر شکرگزار ہیں لیکن وہ مستقبل کی ضروریات کیلئے کافی نہیں اور یہی وجہ ہے کہ افغانستان میں ہر شخص پریشان دکھائی دیتا ہے۔ بقول ڈاکٹرز اگر ہمیں عالمی امداد نہیں ملتی اور صورتحال جوں کی توں برقرار رہتی ہے تو اِس بات کا اندیشہ ہے کہ ہسپتال بند ہو جائیں گے علاج معالجے کی سہولیات ناپید ہو جائیں گی۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: ڈاکٹر باختر جلیل۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)
اشتہار
مقبول خبریں
حقائق کی تلاش
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
افغانستان: تجزیہ و علاج
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
جارحانہ ٹرمپ: حفظ ماتقدم اقدامات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
موسمیاتی تبدیلی: عالمی جنوب کی مالیاتی اقتصاد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
کشمیر کا مستقبل
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد پولیو جدوجہد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
درس و تدریس: انسانی سرمائے کی ترقی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد غربت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
مصنوعی ذہانت: عالمی حکمرانی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
سرمائے کا کرشمہ
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام