چین کے صدر شی جن پنگ اور روس کے صدر ولادیمر پوتن کے درمیان بات چیت (ورچوئل کانفرنس) کے بعد کریملن (روسی صدر کے دفتر) کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا کہ ”روس اور چین کے تعلقات غیر متوقع طور پر مثبت ہو گئے ہیں اور دونوں رہنماؤں نے جنوب ایشیائی خطے کے امور میں امریکہ کی مداخلت پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔“ چین اور روس کی جانب سے امریکہ کے بارے میں جس تشویش کا اظہار کیا گیا ہے اُس کا تعلق حالیہ چند ہفتوں کے دوران امریکہ کی مغرب تائیوان میں مداخلت ہے جبکہ چین اور یوکرین کے معاملے پر روس کو تشویش ہے اور اگر اِس پس منظر کو ذہن میں رکھا جائے تو روس چین صدور کے درمیان مکالمے کی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اِس بات چیت کی خاص بات یہ بھی رہی کہ مکالمے کے بعد روسی صدر پوتن نے مغربی ممالک کی جانب سے بیجنگ سرمائی اولمپک گیمز کے سفارتی بائیکاٹ کو غلط قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ خود اولمپکس کے دوران چین جائیں گے۔ ذہن نشین رہے کہ برطانیہ‘ کینیڈا‘ نیوزی لینڈ‘ لتھوانیا‘ آسٹریلیا اور امریکہ نے چین کے صوبے سنکیانگ میں اویغور مسلمانوں کے انسانی حقوق اور ہانگ کانگ میں جمہوریت کو دبانے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اولمپکس گیمز میں سیاسی وفود نہ بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔ حالیہ دنوں میں روس کو یوکرین کے معاملے پر مغرب سے جھگڑا کرنا پڑا ہے۔ مغربی ممالک کا کہنا ہے کہ روس نے یوکرین کی سرحد پر بھاری تعداد میں فوج تعینات کر رکھی ہے۔ اس نے روس کو بھی خبردار کیا ہے کہ اگر اس نے یوکرین کے خلاف کوئی فوجی کاروائی کی تو اسے بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔ روس نے یوکرین پر حملے کے کسی بھی منصوبے کی تردید کی ہے۔ روس اور چین کے تعلقات گہرے ہونے کی واحد وجہ مغربی ممالک کا دباؤ نہیں ہے۔ بین الاقوامی سطح پر جاری ہنگامہ خیزی بھی ایک اہم وجہ ہے۔ بائیڈن دور میں شروع ہونے والے مسائل بائیڈن انتظامیہ میں بھی برقرار ہیں۔ بائیڈن انتظامیہ کو لگتا ہے کہ ٹرمپ کی قیادت میں امریکہ بین الاقوامی سطح پر کچھ پیچھے ہٹ گیا ہے۔ اس سلسلے میں امریکہ نیٹو کو مضبوط کرنا چاہتا ہے اور ایشیا میں اپنے اتحادیوں کے ساتھ کھڑا ہونا چاہتا ہے۔ چین روس تعلقات کی تاریخ بھی خاصی دلچسپ ہے۔ سال دوہزارآٹھ میں ولادیمر پوتن نے سمجھا کہ مغربی ممالک روس کے ساتھ مساوی تعلقات نہیں چاہتے تو انہوں نے چین کے ساتھ تعلقات مضبوط کرنے کی کوششیں شروع کر دیں۔ دوہزارچودہ میں جب روس نے کریمیا پر قبضہ کر لیا تو مغربی ممالک اور روس کے درمیان تعلقات انتہائی خراب ہو گئے۔ اس صورتحال میں روس نے چین اور دیگر ایشیائی ممالک کا رخ کیا۔ امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر بننے کے بعد چین کے ساتھ امریکہ کا مقابلہ بڑھ گیا تو صورتحال بدل گئی۔ ٹرمپ کے آنے کے بعد روس اور چین دونوں کا ایک ہی مخالف تھا یعنی امریکہ۔ اس کے بعد دونوں ممالک نے بین الاقوامی سطح پر اپنی پالیسیوں کو ہم آہنگ کرنا شروع کیا۔ یہ ساری جدوجہد اس بارے میں ہے کہ کون بین الاقوامی سطح پر ’ٹاپ ڈاگ‘ بنے گا۔ امریکہ اپنی سپر پاور کا درجہ برقرار رکھنا چاہتا ہے اس لئے وہ چین کی ترقی کی رفتار کو کم کر رہا ہے۔ دنیا میں اس وقت امریکہ اور چین کے درمیان مقابلہ بنیادی تضاد ہے۔ روس چاہتا ہے کہ یوکرین اور جارجیا کو کسی بھی حالت میں نیٹو کا حصہ نہ بنایا جائے اور یہ اس کی غیر جانبداری کی قیمت ہو سکتی ہے۔ چین اور روس نے مشترکہ فوجی مشقوں میں حصہ لیا ہے۔ تازہ ترین مشق اکتوبر میں دونوں ممالک کی بحری افواج نے منعقد کی تھی، جسے جوائنٹ 2021-C کا نام دیا گیا تھا۔ یہ ان ممالک کے درمیان بڑھتے ہوئے سیاسی اور فوجی تعاون کا واضح اشارہ تھا۔ اس وقت چین امریکہ کی سپر پاور کی حیثیت کو چیلنج کر رہا ہے۔ امریکہ نے چین کی بڑھتی ہوئی اقتصادی اور فوجی طاقت پر تشویش کا اظہار کیا ہے تو کیا چین روس مستقبل میں امریکی تسلط سے نمٹنے کیلئے باقاعدہ فوجی اتحاد تشکیل دے سکتا ہے؟ تجزیہ کاروں کو ایسا لگتا ہے کہ چین اور روس کے درمیان بہت قریبی فوجی تعاون ہے۔ یہ اتحاد تو نہیں ہو سکتا لیکن کئی طریقوں سے یہ اس کے قریب ہے۔ روس تائیوان کے معاملے پر چین کے ساتھ ہے اور انہوں نے واضح طور پر کہا کہ کیا ایسا ہے۔ ’ایک چائنہ‘ کی پالیسی پر یقین رکھتا ہے۔ یہ دوہزارایک میں روس اور چین کے درمیان ہونے والے معاہدے میں لکھا گیا ہے۔ چین کو توقع ہے کہ روس تائیوان اور بحیرہ جنوبی چین میں اس کی مدد کرے گا اور روس چاہے گا کہ یوکرین یا یورپ چین کو روسی مفادات پر اس کی حمایت کرنے دیں۔ اگر روس اور چین یوکرین‘ تائیوان اور جنوبی چین کے سمندر پر امریکہ اور مغربی ممالک کے ساتھ اپنے اختلافات کو گہرا کریں تو کچھ بھی ممکن ہے لیکن اس طرح کے باضابطہ اتحاد کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ روس اور چین کے درمیان کسی رسمی فوجی اتحاد کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ یہ صرف ایک ہی صورت میں ہو سکتا ہے اور وہ یہ کہ مغربی ممالک بیک وقت روس اور چین پر حملہ کر دیں۔ روس اور چین کے تعلقات میں کچھ تضادات بھی ہیں جس کی وجہ سے ابھی تک کسی فوجی اتحاد کا امکان نہیں ہے۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: ڈاکٹر ظریف گل۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)
اشتہار
مقبول خبریں
حقائق کی تلاش
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
افغانستان: تجزیہ و علاج
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
جارحانہ ٹرمپ: حفظ ماتقدم اقدامات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
موسمیاتی تبدیلی: عالمی جنوب کی مالیاتی اقتصاد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
کشمیر کا مستقبل
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد پولیو جدوجہد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
درس و تدریس: انسانی سرمائے کی ترقی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد غربت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
مصنوعی ذہانت: عالمی حکمرانی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
سرمائے کا کرشمہ
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام