آزاد جموں و کشمیر کی وادیئ نیلم کا ایک چھوٹا سا گاؤں ’شاردہ‘ کے رہنے والوں نے اپنی رہائش گاہیں سیاحوں کیلئے کھول دی ہیں اور اِس سے گھر بیٹھے آمدن کما رہے ہیں۔ خاص بات یہ ہے کہ اِس گاؤں کے لوگوں نے سیاحتی قواعد کے مطابق زندگی بسر کرنے کا ہنر بھی سیکھ لیا ہے اور یہ مہمانوں کو استری شدہ سفید چادریں دیتے ہیں جبکہ خود روایتی چَھپی ہوئی چادریں استعمال کرتے ہیں۔ سیاحتی ترقی و کامیابی کا یہی وہ راز ہے جس پر بہت کم غور کیا جاتا ہے کہ اِس میں سیاح کو ترجیح دی جاتی ہے۔ سال دوہزار اٹھارہ میں ’شاردہ‘ گاؤں کی درجن بھر خواتین کو مہمان داری (سیاحت) کے حوالے سے تربیت دی گئی تھی۔ اس تربیت کا انتظام ہمالین وائلڈ لائف فاؤنڈیشن (ایچ ڈبلیو ایف) کی جانب سے کیا گیا تھا جس کا مقصد پاکستان کے قدرتی وسائل کا تحفظ ہے۔ اِس نظام میں گھر والے اپنے گھر کے کسی کمرے میں سیاحوں کو ٹھہراتے ہیں۔ ’شاردہ‘ گاؤں کے رہنے والوں نے مہمانوں کی میزبانی کا کام باقاعدگی سے مارچ دوہزاراُنیس سے شروع کیا تھا۔ یہاں گھر کے ایک کمرے کا فی رات کرایہ ڈھائی ہزار روپے ہے۔ اِس خطے کے لوگ تاریخی و ثقافتی اعتبار سے مہمان نواز ہیں۔ مقامی طور پر گھروں میں سیاحوں کی مہمان نوازی کرنے کا یہ خیال تو دراصل حکومت کا تھا جس نے اسے پاکستان پاورٹی ایلیویئشن فنڈ (پی پی اے ایف) نامی ایک غیر منافع بخش تنظیم کے سپرد کیا۔ پی پی اے ایف نے اس پراجیکٹ پر عمل درآمد کیلئے ایچ ڈبلیو ایف سے رابطہ کیا کیونکہ وہ گزشتہ پندرہ برس سے کشمیر کے علاقے میں کام کر رہی ہے۔ گلگت بلتستان کے شمالی علاقوں جیسے سکردو‘ چترال‘ سوات اور گلیات کی وادیوں میں سیاحت کی صورتحال قدرے بہتر ہے تاہم بھارت کے ساتھ لائن آف کنٹرول (ایل او سی) کے قریب ہونے اور سڑکوں اور مواصلات کی محدود سہولیات کی وجہ سے وادی نیلم اب تک بے داغ اور محفوظ ہے۔ یہاں کے رہائشیوں کیلئے روزگار کے مواقع محدود اور موسمی ہوتے ہیں اور یہاں کی معیشت کا انحصار گلہ بانی پر ہے۔ یوں جب Home Stay یعنی سیاحوں کو گھروں میں ٹھہرانے نامی منصوبہ شروع ہوا تو اس وادی کو ترجیح دی گئی۔ بہت زیادہ قائل کرنے کے بعد سرداری گاؤں کے مقامی افراد نے دوہزاراٹھارہ میں اپنے گھروں میں اجنبیوں کو ٹھہرانے کی اجازت دی تھی۔ ان منصوبوں کی دیکھ بھال کرنے والی کنسلٹنٹ سمیرا رضا کے مطابق ’ہم نے مقامی افراد کی سوچ بدلنے کیلئے کئی ملاقاتیں کیں‘۔ اگلے سال تک ایچ ڈبلیو ایف نے شاردہ میں سترہ مزید ہوم اسٹے منصوبے تیار کئے ہیں اگرچہ کورونا وبا کی وجہ سے اس منصوبہ کا وقت بہت اچھا نہیں تھا لیکن کچھ دیگر عوامل نے ان منصوبوں کو مکمل طور پر ناکام ہونے سے بچالیا۔ ورک فراہم ہوم اور بیرون ملک سفر پر پابندی کی وجہ سے اکثر پاکستانیوں نے بین الصوبائی سفر کی پابندی ہٹتے ہی پہاڑوں کا رخ کیا۔ اس دوران ورک کیشن یعنی کام کے دوران تفریح کرنے کی ایک نئی صورت سامنے آئی۔ کئی لوگوں نے فضائی سفر میں کورونا کا شکار ہونے کے خوف سے بذریعہ سڑک سفر کو ترجیح دی۔ محکمہ سیاحت و آثار قدیمہ‘ آزاد جموں و کشمیر کے ڈائریکٹر جنرل ارشاد پیرزادہ کا کہنا تھا کہ ’ہم مقامی افراد کو ائر بی این بی طرز کے کاروبار کی جانب راغب کرنے کی کوشش کریں گے‘ اس سے نہ صرف ہمارا ماحول بھی محفوظ رہے گا اور یہ ہماری ثقافت سے بھی مطابقت رکھتا ہے۔‘ انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اس منصوبے کے پیچھے اصل خیال ’مقامی لوگوں کی شمولیت‘ کا ہے تاکہ مقامی ماحول برقرار رہے‘ مہمان ’یہاں کے کھانوں کے مزہ لیں اور قصہ خوانی سے متاثر ہوں۔‘ امید ہے کہ اس قسم کی رہائش کے نتیجے میں سیاح ناران‘ کالام اور نتھیا گلی جیسے چند مقامات کے علاوہ دیگر مقامات کا بھی رُخ کریں گے۔ صرف چند مقامات پر سیاحوں کے رش کے حوالے سے بات کرتے ہوئے صوبائی ترجمان نے بتایا کہ ’یہ ماحول کیلئے بھی نقصان دہ ہے اور ان مقامات کو محفوظ اور صاف رکھنا بھی ناممکن ہے۔ ہوم اسٹے کی صورت میں کئی نئی وادیوں کی کھوج بھی ہوسکتی ہے جو اتنی ہی خوبصورت ہونے کے ساتھ ساتھ اب تک پوشیدہ بھی ہیں۔‘ ان مقامی رہائش گاہوں سے نکلنے والی گرین ہاؤس گیسوں کو ناپنا ابھی قبل از وقت ہوگا لیکن مغربی ممالک میں ائر بی این بی کے حوالے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ہوٹلوں کی نسبت ائر بی این بی میں پانی اور توانائی کا استعمال کم ہوتا ہے اور یہاں کچرا بھی کم پیدا ہوتا ہے۔ آزاد جموں و کشمیر میں جاری یہ منصوبہ دیگر سیاحتی علاقوں کیلئے بھی مثال بن رہا ہے۔ خیبر پختونخوا کے محکمہ کھیل‘ ثقافت‘ سیاحت‘ آثارِ قدیمہ و امورِ نوجوانان کے سیکریٹری عابد مجید کے سامنے بھی یہی منصوبہ ہے عابد مجید کے مطابق ’ہمارا منصوبہ ہے کہ اس رقم کا دس فیصد حصہ ’اینوویشن فنڈ فار انٹر پرینیورز‘ یوتھ اینڈ ویمن‘ اسکیم کے تحت سیاحتی علاقوں میں ہوم اسٹے کیلئے خرچ کیا جائے اور اس سکیم میں مخنث افراد اور معزور افراد پر خصوصی توجہ دی جائے۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: ذوفین ابراہیم۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)