پروفیسر ذکیہ منہاس: گراں قدر خدمات

طب کے تعلیمی مراحل میں آخری سال (فائنل ائر) راقم الحروف نے اپنے خیالات شاعرانہ انداز میں مرتب کئے اور اگرچہ وہ کوشش گزرتے وقت سے اُٹھے غبار میں کہیں گم ہو گئی ہے لیکن اُس نظم بعنوان ’ذکیہ کی مسکراہٹ (Zakia's Smile)‘ کا مرکزی خیال ذہن پر نقش ہے ”جب ہر لب سے آہیں اٹھتی ہیں‘ تکلیف کی نشاندہی کرتی ہے‘ کوئی گزر رہا ہے‘ کوئی قابلِ تعریف لمحہ‘ اپنی تمام اذیتوں کو چھپانے والا‘ سب کو نصیحت کرتا ہوا‘ اس کی حیات آفریں (زیرلب) مسکراہٹ‘ ہونٹوں کے پیچھے چمکتے دانت‘ جیسے بادلوں کے پیچھے چاند چمکتا ہے‘ اُس کی مسکراہٹ سے مردہ دلوں میں نیا ولولہ پیدا ہوتا ہے۔ وہ جینے کی تلقین ہے۔ اُس کی آنکھیں خوشی کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ہے اور وہ کسی سدا بہار کی صورت ہے‘ جسے زوال نہیں اور جسے قدرت نے تاحیات استعارے کی شکل میں بھیجا ہے۔“ یہ وہ زمانہ تھا جب میری پروفیسر ذکیہ منہاس کے ساتھ صرف ایک ہی شناسائی تھی جو ایک معلم کے ساتھ کسی طالب علم کی ہوتی ہے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ یہ رشتہ زیادہ مضبوط اور گہرائی میں تبدیل ہوا اور وقت کی آزمائشوں کا مقابلہ کرتا رہا۔ باعلم ہونے کے ساتھ وہ ایک شفقت بھری ہستی تھی جسے اگر کبھی نہ دیکھوں تو مجھے یقینا بے چینی ہونے لگ جائے۔ مضبوط اعصاب اور ماتحت اہلکاروں کے ساتھ سختی سے پیش آنے والی یہ ہستی ایک ایسا مسیحا تھی کہ جب مریضوں سے ملتی تو اِس کے چہرے پر ہمیشہ مسکراہٹ پھیلی رہتی تھی۔ مجھے یہ بات اچھی طرح یاد ہے کہ ہم طالب علم کبھی کبھی ان کی توقعات پر پورا نہیں اُتر رہے ہوتے جو یقینا بہت بلند ہوتی تھیں لیکن جب وہ مریضوں کا معائنہ کرتیں تو اُن کے چہرے پر سختی کی بجائے نرمی جگہ لے لیتی اور مریضوں کیلئے اُن کی نرم مزاجی کا رویہ بحر بے کراں کی صورت ہوتا جو طب کے پیشے سے جڑے سبھی کیلئے ایک مثال ہے۔ ذکیہ منہاس نہ صرف اچھی معلمہ تھیں بلکہ وہ انتظامی امور کی بجا آوری میں بھی اپنا ثانی نہیں رکھتی تھیں اور یہی وجہ رہی کہ اُس وقت کے گورنر (شمال مغربی سرحدی صوبہ) جنرل فضل حق نے اُنہیں ’خیبر ٹیچنگ ہسپتال‘ کا ایڈمنسٹریٹر مقرر کیا جس کے بعد واضح تبدیلی دیکھنے میں آئی اور نہ صرف یہ کہ ہسپتال میں صفائی ستھرائی کی صورتحال بہتر ہوئی بلکہ طبی اور معاون طبی عملہ بھی اوقات کا پابند ہوگیا حتیٰ کہ غریب مریضوں کو ہسپتال سے ادویات ملنا بھی شروع ہو گئیں۔ جب اُنہوں نے بطور ایڈمنسٹریٹر چارج سنبھالا تو ہسپتال کا کوئی ایک شعبہ بھی مثالی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر رہا تھا لیکن پھر ہسپتال کے ماحول اور اِس کی افادیت و بنیادی کام کی تکمیل ہونے لگی۔ ایسے کئی ڈاکٹر ہیں جو طب کے شعبے سے اپنی وابستگی اور کامیابیوں کو پروفیسر ذکیہ منہاس سے جوڑتے  ہیں۔ پوسٹ گریجویشن میں اُن کا تمام عملہ انتہائی محنت سے کام کرتا تھا۔ وہ تدریس کے دوران نہ صرف نصابی بلکہ عملی زندگی کے تجربات و مشاہدات کا بھی طلبہ سے تبادلہ کرتیں تاکہ وہ اپنے اپنے شعبوں میں کامیاب اور مکمل شخصیت کے ساتھ عوام کی خدمت کا حق ادا کر سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج زچہ و بچہ کے بہت سے ماہر معالجین جنہوں نے پروفیسر ذکیہ منہاس سے علم و تربیت کے مراحل مکمل کئے معروف و معاشرے کی خدمت سرانجام دے رہے ہیں۔ اُن کی شخصیت کا وہ ایک پہلو‘ جو انہیں دیگر ہم عصروں سے ممتاز بنائے رکھتا تھا وہ یہ تھا کہ وہ انسانیت پر یقین رکھتی تھیں جس میں انسانی تقدس اور انسانی اقدار کا احترام شامل ہوتا تھا۔ یقینا ایسی ہستیاں صدیوں میں پیدا ہوتی ہیں اور یقینا جب یوم آخرت اُن کے حساب کتاب کا مرحلہ پیش ہوگا تو غریب لوگوں کی لاتعداد دعائیں اُن پر سایہ فگن ہوں گی۔ جن کی زندگیاں اُن کی وجہ سے محفوظ رہیں اور وہ ایسے کئی گھرانوں کیلئے رحمت کا سائبان تھیں جن کی مستقل بنیادوں پر کفالت اُنہوں نے اپنے ذمے لے رکھی تھی۔ وہ عطیہئ خداوندی تھیں۔ اُن کا وجود صرف پاکستان یا خیبرپختونخوا بالخصوص پشاور کیلئے کسی نعمت سے کم نہیں تھا۔ راقم الحروف و دیگر کیلئے اُن کا طرزحیات رہتی دنیا تک راہ روشن کی طرح رہنما رہے گا جن کی شخصیت ایمانداری‘ خلوص اور بیباکی جیسے جواہر سے مزین تھی اور اُن کی مسکراہٹ لاتعداد دلوں کے لئے حیات آفریں تھی۔ (بشکریہ: ڈان۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)