روپے پر دباؤ اور اصلاحات 

زرمبادلہ ذخائر پر دباؤ میں کمی اور روپے کی قیمت مستحکم کرنے کیلئے سٹیٹ بینک آف پاکستان نے ایکس چینج کمپنیوں کو ہدایات جاری کی ہیں کہ وہ کسی شخص کو یومیہ دس ہزار امریکی ڈالر سے زیادہ اور سالانہ ایک لاکھ ڈالر سے زیادہ کی نقد یا ترسیلات زر کی صورت میں خریداری کی سہولت نہ دیں۔ سٹیٹ بینک کی جانب سے انفرادی طور پر ڈالر کی خریداری پر ایک خاص حد مقرر کرنے سے روپے کی قدر میں بہتری کے امکان ہے کیونکہ ڈالر کی قیمت میں اضافے کی بڑی وجہ بڑھتا ہوا درآمدی بل ہے جو جاری کھاتوں اور توازن میں عدم توازن پیدا کر رہا ہے۔ موجودہ مالی سال کے پہلے پانچ مہینوں میں درآمدی بل 33ارب ڈالر کی بلند ترین سطح تک پہنچ گیا جو گذشتہ سال کے اس عرصے میں ساڑھے 19ارب ڈالر تھا جس میں تقریبا 70فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ ڈالر کی خریداری پر حد مقرر کرنے سے ذخیرہ اندوزی اور سمگلنگ کا سدباب تو ممکن ہے تاہم ایک رائے یہ ہے کہ ڈالر کی قدر بڑھنے کی وجہ مختلف ہے۔ آئی ایم ایف سے ڈالر نہ آنے کی وجہ سے بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی جانب سے بھی پاکستان میں فارن فنڈنگ نہیں ہو رہی جب کہ درآمدات کی وجہ سے ڈالر بہت زیادہ باہر جا رہے ہیں اور یہ صورت حال ڈالر کی قیمت میں اضافے کا سبب بن رہے ہیں۔ سٹیٹ بینک کی جانب سے درآمدی اشیا پر کیش مارجن (cash margin) میں اضافے کے ساتھ حکومت کی جانب سے درآمدی چیزوں پر ٹیکس بڑھانے کیلئے منی بجٹ اسی مقصد کیلئے ہیں کہ درآمدی اخراجات (امپورٹ بل) کو کم کر کے ڈالر پر دباؤ کم کیا جائے تاہم اِس سے ڈالر کی قیمت کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا کیونکہ اِس کا تعین انٹر بینک ریٹ کرتا ہے جہاں سے امپورٹس (درآمدات) کیلئے ادائیگیاں ہوتی ہے اور اسی پر اوپن مارکیٹ میں بھی ریٹ میں ردو بدل ہوتا ہے۔ مرکزی بینک کی جانب سے ڈالر کی خریداری پر ایک خاص حد سے زیادہ خریداری پر پابندی اس وقت لگائی گئی ہے جب ملک میں ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپیہ ملکی تاریخ کی کم ترین سطح پر تبادلہ (ٹریڈ) ہو رہا ہے۔ روپے کی قدر میں یہ کمی موجودگی سال میں مئی کے مہینے میں شروع ہوئی اور اس میں گراوٹ کا سلسلہ جاری ہے۔ اس وقت انٹر بینک میں ایک ڈالر کی پاکستانی روپے میں قیمت 178 سے تجاوز کر چکی ہے اور اوپن مارکیٹ میں اس ایک ڈالر 181 پاکستانی روپوں میں فروخت ہو رہا ہے۔ ڈالر کی بڑھتی ہوئی قدر کی وجہ سے اس کرنسی کی ذخیرہ اندوزی بھی جاری ہے اور افواہ سازی کی بنیاد پر اس کی قدر میں مزید اضافے کے امکان کی وجہ سے سرمایہ کار اس کی خریداری کر کے اس کی ذخیرہ اندوزی کر سکتے ہیں جس کی روک تھام سٹیٹ بینک چاہتا ہے لیکن بے بس ہے۔ذہن نشین رہے کہ سٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب جاری کئے جانے والے اعلامیے کے مطابق بینک نے ایکس چینج کمپنیوں کی جانب سے افراد کو زرمبادلہ کی فروخت کا نظم و نسق چلانے والے ضوابط میں ترمیم کی ہے جس کے تحت کوئی بھی شخص یومیہ نقد یا بیرونی ترسیلات زر کی شکل میں دس ہزار امریکی ڈالر اور ایک کیلنڈر سال میں ایک لاکھ امریکی ڈالرز (یا دیگر کرنسیوں میں اس کے مساوی) سے زائد کی خریداری نہیں کرے گا۔ بینک کے مطابق خریداری کی یہ حد زرمبادلہ کیلئے فرد کی ذاتی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے مقرر کی گئی ہے۔ یہ اقدام ڈالر کی خریداری کو دستاویزی اور اس میں شفافیت بڑھانے اور زرمبادلہ کے نظام کو مزید بہتر بنانے کی غرض سے کیا گیا ہے جو دیگر اقدامات کا تسلسل ہے جس کا مقصد عوام کی حقیقی ضروریات پوری کرنے کے متعلق مارکیٹ کی صلاحیت متاثر کئے بغیر ایکس چینج کمپنیوں کی جانب سے سٹے بازی پر مبنی خریداری اور فروخت کی حوصلہ شکنی کرنا ہے۔ سٹیٹ بینک کے مذکورہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ایکس چینج کمپنیاں ایک ہزار امریکی ڈالر (یا دیگر کرنسیوں میں مساوی) سے زائد کی فروخت پر سپورٹنگ دستاویزات حاصل کریں گی جس سے لین دین کا مقصد کا ظاہر ہو اور یہ کمپنیاں اتھارٹی لیٹرز پرلین دین نہیں کریں گی۔ ہدایات میں اِس بات پر مزید زور دیا گیا ہے کہ ایکس چینج کمپنیاں صرف کمپنی کی مجاز آوٹ لیٹس پر لین دین انجام دیں گی اور صارفین کو ڈلیوری کی خدمات فراہم نہیں ہوں گی۔ پاکستانی روپے کے مقابلے ڈالر کی بڑھتی ہوئی قدر کی وجہ سرمایہ کاروں کیلئے ڈالر میں سرمایہ کاری پرکشش ذریعہ بن چکا ہے اور یہ حقیقت ہے کہ انفرادی طور پر ڈالر کی دھڑا دھڑ خریداری ہو رہی ہے اور اس کی ذخیرہ اندوزی ہو رہی ہے۔ چند ماہ پہلے سعودی عرب نے پاکستان کے زرِمبادلہ کے ذخائر کو سہارا دینے کیلئے سٹیٹ بینک میں تین ارب ڈالر جمع کروانے اور اسے مؤخر ادائیگی کی سہولت کے ساتھ ایک سال میں ایک ارب بیس کروڑ ڈالر مالیت کا تیل دینے کا اعلان کیا تھا۔ یہ بات فطری ہے کہ جہاں اچھا نفع مل رہا ہو وہاں سرمایہ کاری کی جاتی ہے اور اس وقت ڈالر کے ساتھ بھی یہی ہو رہا ہے تاہم مرکزی بینک کی جانب سے ایکسچینج کمپنیوں پر سٹے بازی کی بات ناقابل فہم ہے کیونکہ کمپنیوں کے پاس اتنی بڑی تعداد میں ڈالر نہیں ہوتے کہ وہاں سے خریداری کر کے امریکی کرنسی کی ذخیرہ اندوزی کی جائے۔ کمرشل بینکوں کے پاس ڈالر زیادہ ہوتے ہیں۔ ایکس چینج کمپنیاں انفرادی طور پر ڈالر کی خرید و فروخت کرتی ہیں یعنی وہ کسی فرد سے ڈالر خرید کر اِسے فروخت کرتی ہیں۔ سٹیٹ بینک کی جانب سے ڈالر کی خریداری پر حد مقرر کرنے سے ڈالر کی ذخیرہ اندوزی کا سدباب تو ہوگا تاہم اس سے گرے مارکیٹ کا پھیلاؤ بڑھے گا۔ گرے مارکیٹ حوالہ اور ہنڈی کے کاروبار کو کہا جاتا ہے کیونکہ جب خریدار ایک حد سے زیادہ ڈالر قانونی چینل سے نہیں خرید پائیں گے تو وہ گرے مارکیٹ کا رخ کریں گے۔ جہاں ڈالر کا ریٹ انٹر بینک اور اوپن مارکیٹ میں زیادہ تو ہے لیکن ڈالروں میں قلیل مدتی سرمایہ کاری کرنے والے گرے مارکیٹ پر انحصار کر رہے ہیں۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: ڈاکٹر ہمایوں قاضی۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)