یوکرائن: روسی حملے کا خطرہ

دنیا ایک اور جنگ کے دہانے پر کھڑی ہے۔ فی الوقت اِس بات کا خوف پایا جاتا ہے کہ روس یوکرین پر حملہ کرے گا اور اِس خوف میں صرف یوکرائن ہی نہیں بلکہ مغربی ممالک بھی مبتلا ہیں۔ سات سال قبل روس نے جنوبی یوکرین کا کچھ حصہ اپنے قبضے میں لیا تھا اور تب علیحدگی پسندوں کی حمایت شروع کی تھی جو یوکرائن کے مشرقی علاقوں میں شورش پیدا کر رہے تھے۔ روس عسکری اقدامات کی دھمکیاں دے رہا ہے اور ادھر امریکہ کہہ رہا ہے کہ اگر روس نے حملہ کیا تو امریکہ اس پیمانے کی اقتصادی اور دیگر پابندیاں لگائے گا جو پہلے کبھی نہیں لگائی گئیں مگر اس سب کے پیچھے اصل کہانی کیا ہے؟ یوکرین کی سرحد روس اور یورپی یونین سے ملتی ہے تاہم سابق سوویت ریاست ہونے کے ناطے اس کے روس کے ساتھ گہرے سماجی اور ثقافتی روابط ہیں اور یہاں روسی زبان ہی بولی جاتی ہے۔ روس کافی عرصے سے یوکرین کی یورپی اداروں سے قربت کی مخالفت کرتا رہا ہے۔ جب دوہزارچودہ میں یوکرین میں روس کے حامی صدر کو شکست ہوئی تو روس نے جنوبی کرائیمیا کا جزیرہ نما اپنے قبضے میں لے لیا۔ اس کے علاوہ روس کے حمایت یافتہ باغی یوکرین کے مشرقی علاقوں میں کچھ حصے پر قابض بھی ہوئے۔ روس اس بات کی یقین دہانی چاہتا ہے کہ یوکرائن کبھی بھی مغربی ممالک کے عسکری اتحاد نیٹو کا حصہ نہیں بنے گا۔ یوکرائن کے مشرق میں تناؤ جاری ہے۔ یوکرائن کا کہنا ہے کہ روس نے باغیوں کے زیرقبضہ علاقوں میں ٹینک‘ توپ خانے اور سنائپرز کو محاذ پر بھیج دیا ہے مگر یوکرائن کی سرحد سے باہر تعینات روسی افواج بھی سب سے زیادہ تشویش کا باعث ہیں اور مغربی انٹیلی جنس سروسز کا خیال ہے کہ ان کی تعداد ایک لاکھ تک ہے۔ روس کی جانب سے فوری حملے کے خطرے کا تو کوئی احساس نہیں ہے یا یہ کہ روس کے صدر ولادیمیر پوتن نے حملے کا فیصلہ کرلیا ہے لیکن انہوں نے ”مناسب انتقامی فوجی اقدامات‘‘کی بات ضرور کی ہے۔ روس کے نائب وزیر خارجہ سرگئی ریابکوف نے خبردار کیا ہے کہ کشیدگی 1962ء کے کیوبا میزائل بحران جیسی صورت حال کو جنم دے سکتی ہے‘ جب امریکہ اور سوویت یونین جوہری تنازع کے قریب پہنچ گئے تھے۔ مغربی انٹیلی جنس سروسز کے ساتھ یوکرائن کے خیال میں 2022ء کے اوائل میں کسی وقت حملہ یا فوجی دراندازی ہو سکتی ہے۔ یوکرائن کے وزیر دفاع اولیکسی ریزنکوف کا کہنا ہے کہ ”حملے کے لئے تیاری مکمل ہونے کا سب سے زیادہ امکان جنوری کے آخر میں ہو گا۔‘‘امریکی انٹیلی جنس کا کہنا ہے کہ جنوری کے اوائل تک ایک لاکھ 75ہزار روسی فوجی اس میں شامل ہو سکتے ہیں اور سی آئی اے کے ڈائریکٹر ولیم برنز کا خیال ہے کہ صدر پوتن‘ روسی فوج‘ روسی سیکورٹی سروسز کو ایک ایسی جگہ پر ڈال رہے ہیں جہاں وہ بہت اچھے طریقے سے کام کر سکتے ہیں۔‘ یہ صرف نیٹو کو روس کے زیراثر علاقوں سے دور کرنے کی کوشش بھی ہو سکتی ہے۔ رواں برس اپریل میں پہلے بھی یہی حالات تھے اور اس وقت روس نے چھوٹے پیمانے پر دستوں کی نقل و حرکت کو مشقوں کے طور پر پیش کر کے پھر یہ سب روک دیا اور پھر پیچھے ہٹ گیا (حالانکہ کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ یہ صرف ایک جزوی واپسی تھی)۔ کوئی واضح رعایت نہیں دی گئی۔ صدر جو بائیڈن اور صدر پوتن نے تناؤ کم کرنے کے لئے سات دسمبر کو ویڈیو کال کی لیکن ابھی تک اس کے بہت کم آثار ہیں۔ مشرقی یوکرین کے قریب کرائیمیا میں فوجیوں کی بڑھتی تعداد کی سیٹلائیٹ تصاویر کو روس نے ابتدائی طور پر یہ کہہ کر رد کر دیا کہ یہ بلاوجہ خطرے کی گھنٹی بجائی جا رہی ہے۔ مسلح افواج کے سربراہ ویلری گیراسیموف نے یہاں تک کہا کہ ”میڈیا میں یوکرین پر مبینہ طور پر متوقع روسی حملے کے بارے میں گردش کرنے والی معلومات جھوٹی ہیں۔‘‘لیکن صدر پوتن نے تب بھی دھمکی دی کہ وہ ”مناسب فوجی اقدامات کریں گے اور غیر دوستانہ اقدامات پر سخت ردعمل کا اظہار کریں گے۔‘‘ماسکو نے یوکرائن پر الزام عائد کیا کہ وہ مشرق میں اپنی نصف فوجی طاقت تقریباً ایک لاکھ پچیس ہزار فوجی تیار کر رہا ہے اور الزام لگایا کہ یوکرین روسی حمایت یافتہ علیحدگی پسندوں کے زیر کنٹرول علاقوں پر حملہ کرنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ یوکرائن کا کہنا ہے کہ یہ روس کا اپنے جنگی منصوبوں کو چھپانے کے لئے‘پراپیگنڈا‘ ہے۔ روس نیٹو ممالک پر یوکرین کو ہتھیار فراہم کرنے کا الزام بھی لگاتا ہے۔ امریکہ پر کشیدگی پھیلانے کا الزام لگاتے ہوئے‘ صدر پوتن نے کہا کہ روس کے پاس ”پیچھے ہٹنے کے لئے مزید کوئی جگہ نہیں تو کیا وہ (ہمارے مخالف یہ) سمجھتے ہیں کہ ہم خاموش بیٹھے رہیں گے؟“ روس کا جوابی دعویٰ فوجی کاروائی کا جواز بن سکتا ہے۔ روس کی فیڈریشن کونسل کی بین الاقوامی امور کی کمیٹی کے نائب ولادیمیر زہباروف نے دسمبر کے اوائل میں کہا تھا کہ باغیوں کے زیر قبضہ علاقوں میں تقریباً پانچ لاکھ یوکرینی باشندوں کے پاس اب روسی پاسپورٹ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر باغی رہنما روسی مدد کی اپیل کرتے ہیں تو یقینا ہم اپنے ہم وطنوں کو نہیں چھوڑ سکتے۔‘ صدر پوتن دنیا اور بالخصوص مغربی ممالک کو خبردار کر چکے ہیں کہ وہ یوکرائن پر روس کی ’سرخ لکیریں‘ عبور نہ کریں۔“ روس جنہیں ”سرخ لکیریں“ کہتا ہے ان میں سے ایک نیٹو کی مشرق میں مزید توسیع ہے‘ جس میں یوکرائن اور جارجیا کے ممالک شامل ہیں۔ روس یہ بھی چاہتا ہے کہ نیٹو مشرقی یورپ میں فوجی سرگرمیاں ترک کر دے۔ جس کا مطلب یہ ہو گا کہ پولینڈ اور ایسٹونیا‘ لٹویا اور لتھوینیا سے اپنے لڑاکا دستوں کو نکالنا اور پولینڈ اور رومانیہ جیسے ممالک میں میزائل نہ لگانا شامل ہیں۔ مختصراً روس یہ چاہتا ہے کہ نیٹو اپنی اُنیس سوستانوے سے پہلے کی سرحدوں پر واپس آجائے۔ صدر پوتن کا کہنا ہے کہ ”روس کا مقصد خونریزی سے بچنا اور سفارتی راستہ تلاش کرنا ہے لیکن اس قسم کا مطالبہ ناکام ہونے کا امکان کافی زیادہ ہے۔“ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: سیّد راشد ایوب۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)