توانائی تحفظ

پاکستان میں توانائی عدم تحفظ سے دوچار ہے جبکہ قومی سلامتی اور توانائی کا تحفظ لازم و ملزوم ہیں اور اِن دونوں کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ اگر پاکستان کی قومی سلامتی کے تناظر میں بات کی جائے تو ’توانائی کا تحفظ‘ سب سے نظرانداز شعبہ ہے۔ یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ اگر توانائی کا شعبہ محفوظ و توانا نہیں ہوگا تو یہ ملک کی اقتصادیات کو توڑ سکتا ہے۔ پاکستان میں توانائی کا شعبہ گردشی قرض کی وجہ سے دباؤ میں ہے جو قابو میں نہیں آ رہا اور یہ گردشی قرض قومی معیشت کو ڈبونے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔پاکستان کیلئے توانائی کے تحفظ کا مطلب 3 اقدامات ہیں۔ توانائی کی حسب طلب و ضرورت بلاتعطل فراہمی۔ توانائی کا ایسا ذریعہ جو پائیدار ہو اور ایسی توانائی کہ جس کی قیمت بھی مناسب (عوام کی اکثریت کی قوت خرید کے مطابق) ہو۔ پاکستان میں توانائی کا موجودہ ذریعہ 35فیصد مقامی گیس‘ 31فیصد تیل‘ بارہ فیصد کوئلے‘ 8.7 فیصد مائع گیس (ایل این جی)‘ 7.7 فیصد پن بجلی‘ 2.7 فیصد جوہری صلاحیت (نیوکلیر پاور پلانٹس) اور1.1فیصد رینویل انرجی پر پر مشتمل ہے جبکہ بہت ہی معمولی مقدار میں بجلی درآمد بھی جاتی ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ پاکستان میں بننے والی بجلی کا ایک تہائی درآمدی ایندھن کے استعمال سے حاصل کیا جاتا ہے اور جب ہم بجلی پیدا کرنے کیلئے درآمدی ایندھن استعمال کرتے ہیں تو اِس سے بجلی کی قیمت زیادہ ہوتی ہے اور دوسرا درآمدی ایندھن پر انحصار پائیدار حکمت عملی بھی نہیں ہوتی۔ درآمدی ایندھن کے مقابلے مقامی ایندھن کا زیادہ استعمال ہونا چاہئے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ آئندہ چار برس پاکستان میں مقامی گیس کی پیداوار چار ارب کیوبک فٹ یومیہ سے کم ہو کر دو ارب کیوبک فٹ یومیہ ہونے والی ہے اور گیس کی اِس کمی کی وجہ سے توانائی کے عدم تحفظ میں مزید اضافہ ہوگا۔ پاکستان سالانہ 20 ارب ڈالر کی پیٹرولیم مصنوعات درآمد کرتا ہے جس میں مائع گیس بھی شامل ہے۔ اِسی طرح پاکستان سالانہ ڈھائی ارب ڈالر کا کوئلہ درآمد کرتا ہے۔ پاکستان میں استعمال ہونے والے تیل کا 85فیصد درآمدی ہوتا ہے جبکہ 54فیصد استعمال ہونے والا کوئلہ بھی درآمدات سے ملتا ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان اپنی برآمدات سے جو زرمبادلہ حاصل کرتا ہے اُس کا 80فیصد درآمدات پر خرچ کر دیتا ہے جس کے بعد ملک کے جاری اخراجات کیلئے درکار زرمبادلہ قرضوں یا سود پر حاصل کردہ سرمایہ کاری کے ذریعے پورا کیا جاتا ہے اور قرضوں پر یہ بڑھتا ہوا انحصار پاکستان کو اقتصادی عدم تحفظ سے دوچار کئے ہوئے ہے۔ امریکی ادارے ’انرجی انفارمیشن ایڈمنسٹریشن (EIA)‘ کے مطابق ”پاکستان میں 9 ارب بیرل پیٹرولیم تیل موجود ہے۔“ اور پاکستان کی موجودہ ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے تیل کا یہ ذخیرہ آئندہ پچاس برس کی ضروریات کیلئے کافی ہو سکتا ہے۔ اِسی طرح پاکستان میں 105ملین کیوبک فٹ گیس کے ذخائر ہیں جو پاکستان کی 73 سالہ قومی ضروریات کیلئے کافی ہیں۔ لائق توجہ نکتہ یہ ہے کہ بھارت نے پاکستان سرحد کے قریب ایک کھدائی سے 3.6 ارب بیرل تیل کے زیرزمین ذخیرے تک رسائی حاصل کی تو پاکستان ایسا کیوں نہیں کر سکتا؟ اِس سلسلے میں پاکستان کو چار قسم کے اقدامات کی ضرورت ہے۔ 1: پاکستان میں تیل و گیس کا خودمختار منتظم ادارہ قائم ہونا چاہئے۔ 2: پاکستان میں تیل و گیس کے ذخائر کی تلاش سے متعلق قومی پالیسی پر نظرثانی ہونی چاہئے۔ 3: پاکستان میں تیل و گیس کے ذخائر کی تلاش کیلئے مراعات کا اعلان ہونا چاہئے اور 4: اٹھارہویں آئینی ترمیم کی وجہ سے تیل و گیس کی دریافت پر جو شرائط عائد کی گئی ہیں اُنہیں ختم کرنا چاہئے اور یہی بات EIA نے بھی تجویز کی ہے۔پاکستان توانائی کی پیداوار کیلئے درآمدی ذرائع پر انحصار کر رہا ہے جو پائیدار نہیں اور اگر یہی حکمت عملی جاری رہی تو اِس سے پاکستان میں توانائی کی پیداوار کا شعبہ اور توانائی کی قیمت دونوں ہی عدم استحکام سے دوچار رہیں گی جن کا بوجھ قومی معیشت پر برقرار رہے گا اور اِس سے قومی سلامتی کو لاحق خطرات بھی اپنی جگہ موجود رہیں گے۔ (بشکریہ: دِی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)