نئی نسل کی علامت: بینظیر بھٹو 

اکیس جون اُنیس سو تریپن کے خاصے گرم دن کراچی کے ’پنٹوز نرسنگ ہوم‘ میں بچی کی پیدائش پر اہل خانہ سمیت نرسنگ ہوم کے اراکین بھی بہت خوش تھے۔ اپنی اس پہلی اولاد کو والد نے ’پنکی‘ اور والدہ نے ’بے بی‘ کے ابتدائی ناموں سے پکارا مگر ادارے کے ریکارڈ میں بچی کا نام بینظیر بھٹو درج کیا گیا جو اِس جواں سال (مرحومہ) پھوپھی کے نام پر رکھا گیا تھا۔ بے نظیر بھٹو کے والد ذوالفقار علی بھٹو کا تعلق اشرافیہ سے تھا۔ 1943ء میں اُن کی پہلی شادی شیریں امیر بیگم سے ہوئی اور ستمبر 1951ء میں دوسری شادی کرد نژاد ایرانی خاتون نصرت بھٹو سے۔ نصرت بھٹو ایران کے شہر اصفہان سے تعلق رکھتی تھیں اور انہوں نے کراچی یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی تھی۔ ذوالفقار اور نصرت بھٹو کے چار بچے تھے جن میں بے نظیر کے علاؤہ میر مرتضی‘ صنم بھٹو اور شاہنواز بھٹو شامل تھے۔ بینظیر نے ابتدائی تعلیم ’لیڈی جیننگز نرسری‘ اور پھر ’کونونٹ آف جیسز اینڈ میری‘ کراچی سے حاصل کی۔ پھر دو سال کے لئے وہ راولپنڈی پریزنٹیشن کونونٹ میں زیر تعلیم رہیں‘ جس کے بعد انہیں مری کے ’کونونٹ آف جیسس اینڈ میری‘ بھیجا گیا۔ دسمبر 1968ء میں پندرہ برس کی بینظیر بھٹو نے امتیازی کارکردگی سے او لیولز کا امتحان پاس کیا تو انہیں اپریل 1969ء میں پولیٹیکل سائنس کی انڈر گریجویٹ ڈگری کے لئے امریکہ کی ہارورڈ یونیورسٹی کے ریڈ کلف کالج بھیج دیا گیا۔2016ء میں امریکہ سے شائع ہونے والی بروک ایلن کی کتاب ’فیورڈ ڈاٹر‘ کے مطابق ’بینظیر کی عمر اس یونیورسٹی میں داخلے کے لئے کم تھی مگر بااثر ذوالفقار بھٹو نے ’کچھ ڈوریاں ہلا کر‘ بالآخر اُن کا داخلہ یقینی بنایا اور ہارورڈ یونیورسٹی میں معاشیات کے پروفیسر (اور بعد میں بھارت کے لئے امریکہ کے سفیر بننے والے) جان کینیتھ گیل بریتھ کو بے نظیر کا سرپرست مقرر کیا گیا۔‘ بینظیر کو امریکہ میں زندگی خاصی مشکل لگی اور اس کتاب کے مطابق اُن کی یونیورسٹی کی ایک دوست کا کہنا تھا کہ بینظیر نے ’پہلے سمیسٹر کا زیادہ تر وقت روتے ہوئے گزارا۔‘ لیکن پھر وہ ہارورڈ میں اپنے ہاسٹل ’ایلیٹ ہاؤس‘ کی سوشل سیکرٹری بھی بنیں اور والد کی طرح امور خارجہ میں دلچسپی رکھنے والی بینظیر اُسی زمانے میں ویت نام کی جنگ میں امریکہ کے شامل ہونے کے خلاف مہم میں بھی سرگرم رہیں۔ 2008ء میں شائع ہونے والی انڈین نژاد برطانوی صحافی شیام بھاٹیہ کی کتاب ’گڈ بائے پرنسز‘ اور بروک ایلن کے مطابق 1971ء میں اُن کے ہارورڈ کے زمانہئ طالب علمی کے دوران ہی جب ذوالفقار بھٹو پاک، بھارت جنگ کے معاملے پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں پاکستان کی نمائندگی کیلئے نیویارک پہنچے تو انہوں نے بینظیر کو بھی وہیں بلوا لیا۔ 1972ء میں بینظیر بھٹو ایک بار پھر پاک بھارت مذاکرات میں والد کے ہمراہ نظر آئیں۔ اس مرتبہ وہ مشہورِ زمانہ شملہ معاہدے کی تقریب میں شرکت کی غرض سے بھارت پہنچیں جہاں وہ پہلی بار وزیر اعظم اندرا گاندھی سے بھی متعارف ہوئیں‘ اتنی کم عمری میں خود پر پریس کی اس توجہ کو خود بینظیر بھٹو نے اپنے ہی الفاظ میں یوں واضح کیا کہ ”میں نئی نسل کی علامت تھی۔ میں آزاد پاکستان میں پیدا ہوئی۔ اسی لئے میں اُن تمام پیچیدگیوں اور تعصبات سے پاک تھی جو تقسیمِ ہند کے خونی سانحے اور صدمات کے نتیجے میں بھارتیوں اور پاکستانیوں کو جدا کر چکے تھے۔“ پھر وہ وقت آیا جب فوجی حکومت نے نصرت اور بینظیر بھٹو کو بھی گرفتار کر لیا اور دونوں مختلف شہروں میں قید یا نظربند رکھی جاتی رہیں۔ ذوالفقار بھٹو پر اُن کے سیاسی مخالف رضا قصوری کے والد کے قتل کے الزام میں مقدمہ چلا۔ پھانسی سے قبل بھٹو نے نصرت اور بینظیر دونوں کو ملک سے باہر چلے جانے کو کہا مگر دونوں نے انکار کر دیا۔ اس پھانسی کے بعد بینظیر اور نصرت کو پھر چھ ماہ کے لئے گرفتار کر لیا گیا۔ رہائی ملی تو دونوں کو مزید چھ ماہ کیلئے گھر پر نظر بند کر دیا گیا اور دونوں اپریل 1980ء میں رہا ہوئیں۔ اس مشکل ترین عملی سیاست‘ قید و بند کی مصیبتوں اور مارشل لا کے سخت و کڑے ماحول میں ’اپنوں کے مختلف روئیوں اور کرداروں‘ نے بینظیر کی زبردست سیاسی تربیت کے ساتھ ان کی شخصیت میں وہ تاثر بھی پیدا کر دیا جسے اُن کے حامی مخالفین دونوں اْن کا ’کرشمہ‘ قرار دیتے رہے۔ بالآخر دونوں ماں بیٹی فروری 1981ء میں کئی سیاسی جماعتوں کے ساتھ تحریک بحالی جمہوریت (ایم آر ڈی) نامی اتحاد قائم کرنے میں کامیاب ہو گئیں۔ بینظیر بھٹو کے ساتھ پاکستان کی سیاست کا ایک ایسا دور اختتام کو پہنچا ہے جس کے طلمساتی اثرات آج بھی محسوس کئے جا سکتے ہیں اور شاید ہی پاکستان کبھی بھٹو خاندان کے سیاسی سحر سے نکل پائے گا۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: ڈاکٹر نسرین جبین۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)