دوسری عالمی جنگ کے نتیجے میں دنیا کی 3 فیصد آبادی صفحہئ ہستی سے مٹ گئی۔ انسانیت نے اِس سے قبل کبھی بھی اِس قدر بڑے پیمانے پر قتل و خون نہیں دیکھا تھا لیکن اِس کے باوجود بھی جنگوں اور تنازعات کی تاریخ سے سبق نہیں سیکھا گیا اور دنیا ایک ایسی جگہ بن گئی ہے جہاں جنگ کی وجہ سے تنازعات پیدا ہوتے ہیں اور تنازعات کو حل کرنے کے لئے بھی جنگوں ہی کا سہارا لیا جاتا ہے جو کہ سراسر غلط حکمت عملی ہے۔ جنگی امور سے متعلق ماہرین اور تجزیہ کاروں کا دعویٰ ہے کہ جنگ کی نوعیت ناقابل تغیر ہے جس میں جنگجو اپنی مرضی کو ایک دوسرے پر مسلط کرنے کے لئے تشدد کی ابتدائی جبلت سے گریز کرتے ہیں جب کہ ٹیکنالوجی میں تبدیلیوں کے ساتھ جنگ کا کردار یا عمل دخل عارضی رہتا ہے۔ ڈیجیٹل دور میں جنگ کی بدلی ہوئی نوعیت اور کردار کے پیش نظر مذکورہ بالا تصور صرف جنگ پر تنقید کے لئے آیا ہے۔ ٹیکنالوجی نہ صرف لغوی معنوں بلکہ جنگ کی ساخت اور تاثیر کو بھی بدل رہی ہے۔ قومی سلامتی کے غیر روایتی تصور پر ہماری موجودہ توجہ کے باوجود‘ مخصوص جیو اسٹریٹجک محل وقوع اور مخالفت پر مبنی سیاست کی وجہ سے روایتی سلامتی ہماری قومی سلامتی کا مرکز بنی ہوئی ہے۔ شاید یہ برصغیر کے زرخیز میدان تھے جس نے شمال سے جنگجو حملہ آوروں کے حملوں کی لہروں کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ مارٹن وان کریولڈ کے مطابق جنگ غیر تثلیثی نوعیت کی طرف جا رہی ہے۔ تثلیثی جنگ میں‘ مسلح افواج حکومت کی ہدایت کے تحت جنگیں لڑتی ہیں۔ جوہری انقلاب کے بعد روایتی جنگوں خاص طور پر جوہری طاقتوں کے درمیان کی جگہ غیر روایتی تنازعات نے لے لی ہے جن میں گوریلا جنگیں‘ دہشت گردی‘ محدود روایتی جھڑپیں اور ہائبرڈ جنگیں شامل ہیں جن میں قومی طاقت کی صلاحیت کے اہم عناصر جیسا کہ معیشت‘ قومی حوصلے کو نشانہ بنایا گیا ہے اور ہم آہنگی ہائبرڈ خطرات تصادم میں ایک غیر حرکی جہت کا اضافہ کرکے فطرت کے ساتھ جنگوں کے کردار کو بھی بدل رہے ہیں جو روایتی حرکیاتی ردعمل کے مقابلے میں غیر متحرک ردعمل کے اختیارات کے لئے زیادہ قابل عمل ہے۔ ماضی کی جنگوں کے برعکس مستقبل کی جنگوں میں ابتدائی تشدد صرف جنگ کے ذرائع یا صنعتی انفراسٹرکچر کو نشانہ نہیں بنائے گا بلکہ لوگوں کی منصفانہ جنگ لڑنے کی خواہش کو نشانہ بنائے گا۔ مستقبل کی جنگیں کسی اجنبی طاقت کی جانب سے غیر ریاستی عناصر کے ذریعے لڑی جا سکتی ہیں جس کے نتیجے میں جنگوں کے موجودہ قوانین کی خلاف ورزی اور اِن سے متعلق اخلاقی سوالات اٹھیں گے۔مستقبل کی جنگوں کی شکل دینے والی تکنیکی اور سماجی تبدیلیوں کے ساتھ رفتار برقرار رکھنے کیلئے جنگوں کا کردار بھی بدل رہا ہے۔ برطانوی جنرل جوناتھن شا کے مطابق ٹیکنالوجی تشدد کو کنٹرول کرنے والوں اور تشدد کے مرتکب افراد کے درمیان توازن کو بدل کر جنگ کی نوعیت کو بدل رہی ہے۔ مصنوعی ذہانت‘ کوانٹم میکینکس اور ’بگ ڈیٹا لوپ‘ نئے تجربات کو جنم دے رہا ہے جس میں مشاہدہ فیصلہ اور عمل تکنیکی طور پر نئے امکانات کے ساتھ خطرات بھی پیدا کر رہے ہیں۔ کیا ہوگا اگر جدید دور کا ڈاکٹر اسٹرینجلوو جارحانہ کاروائی کے ممکنہ اثرات کا اندازہ لگانے کے لئے انسانی فیصلے کو مناسب وقت دیئے بغیر جنگ ہی کو حل قرار دے؟ اگر ٹیکنالوجی کو انسانی فیصلے پر لگام نہیں دی جاتی تو یہ حادثاتی جوہری تنازعات اور غیر ارادی جنگوں کی صورت ظاہر ہوگی جو ایک خطرات سے بھرپور راستہ ہے۔مستقبل کی جنگوں کا اندازہ موجودہ حالات کی روشنی میں پیش آنے والی واقعات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے بالخصوص آذربائیجان آرمینیا تنازعہ کہ جس جہاں روایتی ہتھیاروں کا استعمال کیا جا رہا ہے وہیں ہتھیاروں سے لیس ڈرون طیارے بھی خودکار ہتھیاروں کے نظام کی طاقت کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ تصور کیا جا سکتا ہے کہ نینو ڈرونز (انتہائی چھوٹے حجم کے ڈرون طیاروں) کی بھیڑ مستقبل کے جنگی منظرنامے کو تبدیل کر کے رکھ دے گی۔ یہ نینو ڈرونز اہداف کو تلاش کرنے اور تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور زمین کے ساتھ خلا میں بھی کام کریں گے۔ مصنوعی ذہانت سے لیس جدید جنگی ہتھیاروں کے مہلک ہونے کو نئے قواعد و ضوابط سے کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ ڈیجیٹل دور کی ٹیکنالوجی کا استعمال ہتھیاروں کو زیادہ مہلک بنا رہا ہے۔ شاید عالمی اتفاق رائے مستقبل کے ہتھیاروں کے پلیٹ فارمز‘ خاص طور پر مہلک خود مختار ڈرون سسٹمز کی اصلاح کر سکے۔ انسانی تاریخ میں جنگیں جن معلومات کی بنیاد پر لڑی جاتی ہیں یا اُن کی منصوبہ بندی کی جاتی ہے اُن معلومات تک رسائی ماضی کی نسبت آسان ہو گئی ہے۔ اِس تناظر میں قومی سلامتی کے ردعمل کے روایتی اور گرے زون وارفیئر کو یکساں اہمیت دینے کی ضرورت ہے جو کہ کائنیٹک اور غیر متحرک خطرات کا مقابلہ کرنے کے ردعمل کے مطابق ہو۔ جنگ میں ٹیکنالوجی کے استعمال کی وجہ سے قومی سطح پر ایسے مشاورتی ادارے قائم کرنے کی ضرورت ہے جو سول اور فوجی صلاحیتوں کو یک جا کرتے ہوئے صحت مند قومی سلامتی اور فوجی حکمت ِعملیوں کو تیار کرنے میں مدد کریں۔ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: راشد ولی جنجوعہ۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)
اشتہار
مقبول خبریں
حقائق کی تلاش
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
افغانستان: تجزیہ و علاج
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
جارحانہ ٹرمپ: حفظ ماتقدم اقدامات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
موسمیاتی تبدیلی: عالمی جنوب کی مالیاتی اقتصاد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
کشمیر کا مستقبل
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد پولیو جدوجہد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
درس و تدریس: انسانی سرمائے کی ترقی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد غربت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
مصنوعی ذہانت: عالمی حکمرانی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
سرمائے کا کرشمہ
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام