سوویت یونین سے روس کا سفر: تیس سال

سال دوہزار میں اقتدار میں آنے کے بعد سے پوتن نے امریکہ اور اس کے نیٹو اتحادیوں کے ہاتھوں برسوں کی مبینہ تذلیل کے بعد روس کی عالمی طاقت کی حیثیت کو بحال کرنے کے اپنے عزم کو راز نہیں رکھا۔ بورس یلسن کے 1999ء میں صدارت کے عہدے سے مستعفی ہو جانے کے بعد پوتن نے عبوری طور پر صدارت کا عہدہ سنبھال لیا اور صرف چار ماہ بعد ہی وہ پہلی مدت کے لئے روس کے صدر منتخب ہو گئے۔ اس برق رفتار عروج کے بعد وہ 1953ء میں مرنے والے سوویت رہنما جوزف سٹالن کے بعد کریملن میں سب سے طویل عرصے تک براجمان رہنے والے صدر بن چکے ہیں۔ اس طرح انہتر سالہ پوتن بیس سو چھتیس تک کریملن میں رہ سکتے ہیں۔ ان پر تنقید کرنے والوں کا دعویٰ ہے کہ صدر کا سوویت دور میں جو ذہن بنا اس نے دنیا کے بارے میں ان کی سوچ کو تشکیل دیا۔ یہ نوٹ کرنا دلچسپ ہے کہ دس سال پہلے (کریملن میں) انہوں نے اس بارے میں بات کی تھی کہ کس طرح روس کو مزید پُرکشش بنانے کی ضرورت ہے اور اسے اپنی ’سافٹ پاور‘ یا دوستانہ اثر و رسوخ استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ اب وہ مکمل طور پر بدل چکے ہیں۔ کوئی بھی (ماسکو میں) خود کو زیادہ پرکشش بنانے میں دلچسپی نہیں رکھتا۔ وہ صرف یہ چاہتے ہیں کہ روس کا فعال کردار ہو‘ روس کا اقوام عالم میں اہم مقام ہو اور دنیا روس کو اہمیت دے۔ اگر صرف دفاعی نکتہ نگاہ سے دیکھیں تو پوتن یہی چاہتے تھے اور مجھے لگتا ہے کہ انہوں نے وہ سب کچھ حاصل کر لیا ہے جو حاصل کرنا چاہتے تھے۔ 
سویت یونین کے زوال کے بعد روس کی تنزلی روکنے کے لئے پوتن کی اوّلین ترجیح سویت یونین کے دور میں روس کے زیر اثر علاقوں یا ریاستوں میں بیرونی طاقتوں کی پیش قدمی یا بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کو روکنا تھا۔ دوہزارآٹھ میں روسی فوج نے جارجیا پر حملہ کیا تاکہ مغرب کے حامی صدر میخائل ساکاشویلی کو علیحدگی پسند جارجیائی علاقے جنوبی اوسیتیا‘ جو کہ روس کے زیر اثر ایک علاقہ ہے‘ اس پر دوبارہ فوجی قبضے سے روکا جا سکے۔ اگر وہ اپنے ٹوٹے ہوئے ملک کو دوبارہ متحد کرنے میں کامیاب ہو جاتے‘ تو وہ جارجیا کو نیٹو میں شامل ہونے کے لئے قابل عمل امیدوار بنانے کے اپنے بیان کردہ ہدف کے بہت قریب پہنچ سکتے تھے۔ یوکرین کے ساتھ سرحد پر روسی فوجیوں کی نئی تعیناتی نے یورپی یونین اور امریکہ کو پریشان کر رکھا ہے۔ یہ فوجی کاروائیاں سوویت یونین کا کھویا ہوا مقام دلانے کی پوتن کی کوششوں کا حصہ نہیں بلکہ یہ روس کی سلامتی کے تاریخی تصور کے بنیادی اصولوں کا اہم عنصر ہے۔ اپنے زیر اثر علاقوں کو محفوظ رکھنے کی سوچ روس کی قومی سلامتی کے تصور سے جنم لیتی ہے کہ اپنے قومی مفادات کا دفاع کیا جائے اور یہ روس پر ہونے والے حملوں کے تجربے کا نچوڑ بھی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ’روس اپنے ممکنہ دشمنوں کو اپنے سے دور رکھنا چاہتا ہے۔ روس نیٹو تنظیم کو اپنی قومی سلامتی کے لئے سب سے بڑا خطرہ تصور کرتا ہے اور وہ نہیں چاہتا کہ نیٹو اس کی سرحدوں پر آ کر بیٹھ جائے اگرچہ روس نے اپنے جوہری ہتھیاروں کے ذخائر میں بڑی تک حد تک تخفیف کر دی تھی لیکن اس کے باوجود وہ اب بھی دنیا میں دوسری سب سے بڑی جوہری قوت ہے۔ روس کی عالمی طاقت بحال کرنے کی دوڑ میں‘ پوتن نے یہ بھی اپنے اوپر لے لیا ہے کہ وہ ان خطوں میں تعلقات کو مضبوط کریں جو پہلے سے ہی سوویت یونین کے لئے دفاعی لحاظ سے اہم تھے جیسے لاطینی امریکہ۔ سفارتی سطح پر اور بین الاقوامی اداروں میں نمائندگیاں جو پہلے سوویت یونین کے زیر استعمال تھیں‘ اب روس استعمال کر رہا ہے۔ لاطینی امریکہ میں روس کی موجودگی ایک وسیع تر بین الاقوامی حکمت عملی کا حصہ ہے جس کا بنیادی مقصد خطے میں امریکی قیادت کو کمزور کرنا اور دوسری بڑی ابھرتی ہوئی طاقت چین سے مقابلہ کرنا ہے۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: ڈاکٹر ظہور عادل۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)