نیا سال: درپیش چیلنجز

اگرچہ حکومت مشکلمعاشی حالات میں بڑی حد تک  خود کو قائم اور مضبوط رکھنے میں کامیاب تو رہی لیکن نئے سال میں اس سے بھی زیادہ کڑا وقت سر پر آسکتا ہے۔ یہ آنے والے وقت میں ملک کو درپیش چیلنجز ہیں۔ پی ٹی آئی حکومت کے لئے نئے سال کا آغاز ترمیمی مالیاتی بل یا منی بجٹ کے معاملے سے ہوگا‘ جسے  پارلیمنٹ سے منظور کروانا ہوگا۔ عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کی شرائط پورا کرنے لئے اٹھائے گئے مالیاتی اقدامات کے سیاسی منظرنامے پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔  بلاشبہ حکومت کے لئے پارلیمنٹ میں اپنی اکثریت ثابت کرنے کا یہ سب سے بڑا امتحان ہوگا۔ اگر بل منظور نہیں ہوتا تو حکومت کی کمزوریاں مزید کھل کر سامنے آئیں گی۔ حتیٰ کہ اگر حکومت پارلیمنٹ میں بل منظور کروا بھی لیتی ہے تو بھی ٹیکس سے جڑے اقدامات کے اثرات ضرور سامنے آئیں گے جو مزید مہنگائی کی صورت میں ہو سکتے ہیں۔ یقینا دوہزاربائیس میں یہ وزیراعظم عمران خان کے لئے ایک بڑا امتحان ہوگا۔خیبرپختونخوا میں بلدیاتی انتخابات کا دوسرا اور پنجاب میں ان انتخابات کا اہم ترین مرحلہ بھی اگلے سال کی ابتدا میں شروع ہوگا مزید برآں بڑھتی ہوئی مہنگائی  کو قابو میں رکھنے کی کیلئے اب فیصلہ کن اقدامات کا وقت ہے اورحکومت کی توجہ بھی اس سمت مرکوز رہے گی یعنی اس ضمن میں مثبت خبریں کی امید وابستہ کی جاسکتی ہے۔ عام انتخابات سے محض اٹھارہ ماہ قبل پنجاب میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات  کے بھی دور رس اثرات سامنے آئیں گے۔  خیبرپختونخوا اور پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کے نتائج آنے والے سال میں ملک کی سیاست کا نقشہ کھینچنے کیلئے کافی ہوں گے۔  ملک کے لئے سیاسی عدم استحکام اور اقتصادی بحران سب سے سنگین مسائل کا باعث بنے ہوئے ہیں جن کا سامنا کرنا کیلئے اب حکومت اور حزب اختلاف کو آپس کے اختلافات کم کرنے ہوں گے۔ افغانستان سے امریکی انخلأ کے بعد جیوپولیٹکس میں آنے والی غیرمعمولی تبدیلیوں اور جنگ زدہ ملک میں طالبان حکومت کی واپسی کی وجہ سے آئندہ برس پاکستانی حکومت کو خارجہ پالیسی اور سیکیورٹی مسائل کے زبردست چیلنجوں کا سامنا کرنا ہوگا۔ افغانستان پر منڈلاتے اقتصادی زوال کے خطرے اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے انسانی بحران کی بدترین صورتحال کے پاکستان پر براہ راست اثرات مرتب ہوں گے۔ افغانستان میں غیریقینی کی صورتحال کے باعث آنے والے برس میں صورتحال مزید مشکل ہوسکتی ہے  جس کا تدارک بروقت کرنا ہوگا۔  سال کے آخری دنوں میں سول اور فوجی قیادت نے ایک ایسی نیشنل سیکیورٹی پالیسی منظور کی ہے جو کہ حکومت کے مطابق افغانستان کی صورتحال سمیت داخلی اور بیرونی سیکورٹی کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرے گی۔ اگرچہ پالیسی کی دستاویز عوامی سطح پر جاری نہیں کی گئی لیکن کہا جارہا ہے کہ اس میں ’اگلے برس پاکستان کو درپیش چیلنجوں اور مواقعوں‘ کو بیان کیا گیا ہے۔ حکومت کے بقول اس پالیسی کے تحت ’اقتصادی سیکیورٹی کو اوّلین پالیسی ترجیحات میں شامل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔‘ یقینا قومی سلامتی کے معاملے میں اجتماعی طرزِعمل کی ضرورت پر کوئی دو رائے نہیں اور بلاشبہ ملکی سیکورٹی کا دارومدار اقتصادی سیکیورٹی پر ہے مگر اہم مسئلہ یہ ہے کہ اس پالیسی کی روشنی میں عمل کس طرح کیا جائے گا۔ اقتصادی آزادی اور اپنی ضروریات کو خود پورا کرنے کی صلاحیت پیدا کرنے کیلئے ویژن درکار ہوتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت کس طرح اگلے برس درپیش ان غیر معمولی چیلنجوں سے نمٹتی ہے۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: زاہد حسین۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)