حفاظتی اور حفظ ماتقدم کے تحت کئے گئے اقدامات کی وجہ سے سیکورٹی کو لاحق خطرات ختم ہو جاتے ہیں۔ جب ہم کسی خطرے کی موجودگی اور اُس کے امکان یعنی رسک (risk) کی بات کرتے ہیں تو اِس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہم خطرے سے دوچار ہیں کیونکہ خطرے کا اثر ہر ایک اور ہر شے پر پڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر حکومت اور قانون نافذ کرنے والے جملہ اداروں کی پہلی کوشش (اولین ترجیح) یہی ہوتی ہے کہ وہ کسی بھی خطرے کے امکان تک کو پیدا نہ ہونے دیں اور اُس سے متعلق پہلے ہی سے منصوبہ بندی کئے ہوئے ہوں۔ اِس مقصد کیلئے خفیہ اداروں سے استفادہ کیا جاتا ہے جن کی اہمیت دوچند بڑھ جاتی ہے اور خفیہ اداروں سے ملنے والی معلومات کی بنا پر داخلی و خارجی خطروں کا مقابلہ اور انہیں زائل کرنے کے لئے منصوبہ بندی یا تیاری کی جاتی ہے۔ یہ منصوبہ بندی اور تیاری کتنی جامع ہو سکتی ہے اِس کا تعلق اُن معلومات پر ہوتا ہے جن سے خطرے کی نوعیت بارے رائے قائم کی جاتی ہے۔
خطرے کے پانچ بنیادی پہلو (matrix) ہوتے ہیں۔ یہ فوجی‘ جوہری‘ دہشت گردی‘ سائبر اور اقتصادی ہو سکتا ہے۔ اِسی طرح کسی ملک کے چند خطرات قومی اتحاد‘ نظم و ضبط‘ جغرافیائی اور سالمیت سے متعلق بھی ہوتے ہیں۔ روایتی خطرات کی فہرست میں عموماً بیرونی حملہ آوروں اور خطرات ہی کو شمار کیا جاتا ہے جبکہ اِنہی کی ذیل میں داخلی سیکورٹی خطرات بھی پیش نظر رکھے جاتے ہیں۔ دہشت گردی‘ سائبر اور اقتصادی خطرات ایسے بڑے نہیں ہوتے کہ اِن سے ملک کے قیام ہی کو خطرہ ہو۔
اگر ہم بھارت کی بات کریں تو وہ پاکستان کے لئے فوجی اور جوہری خطرہ ہے جو یہ بھی چاہتا ہے کہ پاکستان میں قومی اتحاد و اتفاق کی فضا خراب ہو۔ بھارت پاکستان کے قیام سے آج تک خطرہ ہے اور یہ خطرہ صرف پاکستان ہی کو نہیں بلکہ دنیا کی نظروں میں ہے کیونکہ بھارت پاکستان تنازعہ آج کی دنیا کے چند بڑے تنازعات میں سے ایک ہے۔
امریکہ نے دنیا پر حملہ آور ہونے کیلئے اقتصادی ہتھیار متعارف کرایا ہے اور وہ ممالک کی اقتصادی مجبوریوں سے فائدہ اُٹھا کر اُن کی کلیدی فیصلہ سازی کو اپنی مٹھی میں کر لیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اُسے کسی ملک پر قبضہ کرنے کے لئے اپنی فوج یا ہتھیاروں کی ضرورت نہیں پڑتی اور یہ کام بڑی چالاکی سے بذریعہ اقتصادیات کیا جاتا ہے۔ پاکستان جبکہ اِس بات کو سمجھتا ہے کہ امریکہ کا ہتھیار اُس کی اقتصادی حکمت عملیاں ہیں جن کے ذریعے وہ اپنے مفادات کا حصول کر رہا ہے تو اِس صورتحال سے نمٹنے کے لئے پاکستان کو چار قسم کے اقدامات کرنا ہوں گے۔ سب سے پہلے امریکہ کے ساتھ تعلقات میں سردمہری کی بجائے گرمجوشی پیدا کرنی ہوگی۔ پاکستان کو اپنی اقتصادی کمزوریوں اور خامیوں کو دور کرنا ہوگا۔ پاکستان کو لاحق غیرفوجی خطرات کا درست اندازہ لگانا ہوگا اور چوتھا اقتصادی محاذ پر اہم ترین نظم و نسق (ادارہ جاتی کارکردگی) کے اہداف متعین کرنا ہوں گے۔ روس کی افواج کے سربراہ (چیف آف جنرل سٹاف) جنرل والرے ویسیلے ویچ گریرسامؤو (Gen. Valery Vasilyevich Gerasimov) نے کہا تھا کہ ”جنگ اب روایتی نہیں بلکہ غیر روایتی ہتھیاروں سے لڑی جاتی ہے۔ ماضی کے مقابلے جب جنگیں فوجی افرادی قوت اور ہتھیاروں سے لڑی جاتی تھی اب یہ صرف ایک فیصد عسکری وسائل جبکہ چار فیصد غیرعسکری ہتھیاروں سے لڑی جاتی ہے۔“ (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)