نیا سال: نئی مشکلات

نئے عیسوی سال کا آغاز ایک ایسے وقت میں ہوا ہے کہ جب نئے سال میں اہم عالمی رجحانات اور خدشات کا تعین کرنے کے ساتھ یہ اندازہ لگانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ کون سی نئی جیوپولیٹکل تبدیلیاں رونما ہوسکتی ہیں۔ کون سے نئے چیلنج سر اٹھا سکتے ہیں اور دنیا کے کن چیلنجوں سے جلدی جان چھڑانا آسان نہیں ہوگا؟ پوری دنیا میں کئی تھنک ٹینکس سمیت بین الاقوامی اشاعتی ادارے اور سرمایہ کار ادارے اسی طرح کے جائزوں پر کام کرتے ہیں۔ گزشتہ دو برس سے دنیا پر غالب کورونا وائرس کی وبا سال دوہزاربائیس میں بھی ایک بڑا چیلنج کا باعث بنی رہے گی۔ اس عالمی وبا کا نیا سلسلہ اومی کرون کی صورت میں دوہزاراکیس کے آخر میں شروع ہوا جس نے ہماری اس امید پر پانی پھیر دیا کہ ہم ویکسینیشن کی مہمات سے وائرس کو ہرادیں گے۔ سال کی ابتدا کے ساتھ دنیا نے خود کو ایک اور لہر اور مختلف ویریئنٹس کا مقابلہ کرنے والے ٹیکوں کے لئے کمر کس لی ہے۔ یورپ اور امریکہ کو ’کیسوں کی سونامی‘ کا سامنا ہے جبکہ یہ خدشات بھی ظاہر کئے گئے ہیں کہ نئی لہر ایشیا کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔سال دوہزاربائیس میں دنیا کے مختلف ممالک کو کورونا وائرس کے سبب پیدا ہونے والے کثیر الجہت مسائل اور سب سے بڑھ کر معیشت پر پڑنے والے اثرات بالخصوص دنیا میں اقتصادی شرح پیداوار کی سست روی اور مہنگائی میں اضافے کے باعث جمودی افراط زر سے نمٹنا ہوگا۔ عالمی سپلائی چین میں رکاوٹیں قیمتوں میں اضافے کا سلسلہ جاری رکھ سکتی ہیں۔ زیادہ تر جائزوں میں مہنگائی کو ایک اہم رجحان کے طور پر دیکھا گیا ہے جس کی وجہ سے اقتصادی بحالی خطرے میں پڑجائے گی۔ اس کے علاؤہ ویکسین پر جیوپولیٹکس کے ساتھ ویکسین سفارت کاری‘ امیر اور ترقی پذیر ممالک میں ویکسینیشن تک غیر مساوی رسائی کی ناخوشگوار حقیقت جوں کی توں رہے گی۔ گزشتہ سال کا سبق بڑی حد تک بھلا دیا گیا ہے جو کچھ یوں تھا کہ جب تک ہر ایک محفوظ نہیں ہوگا تب تک کوئی بھی محفوظ نہیں ہوگا تاہم ویکسینیشن میں تفریقات نہ مٹ سکیں‘ یہاں تک کہ عالمی ادارہ برائے صحت کے سربراہ کو دوبارہ ’عالمی سطح پر ویکسین کے معاملے پر جاری عدم مساوات‘ کی روش کے خاتمہ کا مطالبہ کرنا پڑ گیا۔ اکانوسمٹ کی اشاعت ’ورلڈ اہیڈ 2022ء‘ کے ایڈیٹر ٹام سٹینڈیج نے انٹی وائرل گولیوں‘ پہلے سے بہتر ٹیکوں اور انٹی باڈی سے علاج کے طریقوں کے نتیجے میں عالمی وبا سے نمٹنے کا حل بتایا جو اس سال کے اوّل دس رجحانات میں شامل کیا گیا ہے مگر انہوں نے جو نتیجہ اخذ کیا ہے وہ قابلِ غور ہے‘ ان کے مطابق اگرچہ امیر ممالک تو خود کورونا سے جان چھڑالیں گے مگر ترقی پذیر ممالک میں یہ وائرس مہلک بنا رہے گا۔ کورونا کی وبا کے دوران عالمی یک جہتی کا فقدان وہ دوسرا رجحان ہے جو اس سال بھی کئی علاقوں میں برقرار رہے گا۔ دنیا کی بڑی طاقتوں کی جانب سے کثیرالملکی اشتراک اور بین الاقوامی تعاون کو فروغ دینے کے دعوؤں کے باوجود حقیقی دنیا میں تعاون سے زیادہ مسابقت کی سوچ غالب رہی ہے۔ ممالک کے درمیان مقامی مسائل میں زیادہ دلچسپی عالمی تعاون کو مزید کمزور کرے گی۔ لندن میں قائم انٹرنیشنل انسٹیٹیوٹ آف اسٹریٹجک اسٹیڈیز کے سالانہ اسٹریٹجک سروے میں مختلف اہم شعبوں میں تعاون کے فقدان کو اوّلین رجحان کے طور پر شامل کیا گیا ہے جو پہلے ہی واضح طور پر نظر آ رہا ہے تاہم اس میں چند نئے معاہدے اور (موسمیاتی تبدیلی پر) COP26 سمیت چند باہمی تعاون کے کامیاب تجربوں کا تذکرہ بھی کیا گیا ہے مگر مجموعی طور پر دیکھا جائے تو دنیا میں غالب وہی سوچ ہے جو دنیا کو بانٹنے کا کام کر رہی ہے۔ اسی طرح ’فنانشل ٹائمز‘ نے بھی حالیہ اداریے میں بین الاقوامی ہم آہنگی اور تعاون کی سنگین ناکامیوں کو عالمی وبا کے تناظر میں ایک خطرے کے طور پر بیان کیا تھا مگر اس بات کا اطلاق بھی بڑی حد تک اس دنیا پر ہوتا ہے جہاں اسٹریٹجک فیصلے بڑی طاقتوں کے درمیان تناؤ کو دیکھتے ہوئے کئے جاتے ہیں۔ دوسری طرف طاقتوں کے درمیان تناؤ بھرے حالات گھٹنے کے بجائے مزید شدت اختیار کرچکے ہیں اور یہ رجحان آئندہ سال بھی جاری رہ سکتا ہے۔ مشرق و مغرب کے مابین تناؤ سے منتشر بین الاقوامی نظام میں مزید انتشار پیدا ہوگا۔ دنیا کے جن دو ممالک کے تعلقات کے اثرات پوری دنیا پر پڑ سکتے ہیں وہ امریکہ اور چین ہیں۔ سال دوہزاربائیس میں ان دو ملکوں کے درمیان تعلقات جیوپولیٹکس کے معاملے میں سب سے اہم کردار ادا کریں گے۔ اگر اعلیٰ سطح پر دو طرفہ رابطوں کی کوششوں کے باوجود تائیوان کے معاملے پر تناؤ بے قابو ہوگیا تو یہ دونوں ملکوں کے درمیان تنازعہ خطرناک صورت اختیار کرسکتا ہے۔ زیادہ تر جائزوں میں ٹیکنالوجی کے میدان میں لڑی جانے والی جنگ کے باعث ڈیجیٹل دنیا میں بڑھتی ہوئی تقسیم کے ساتھ ان دونوں ملکوں کے درمیان تناؤ کو سب سے بڑے رسک کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔ یوریشیا گروپ کے سربراہ ایان بریمر کے مطابق ’ان دونوں کی مسابقت کا ایک نتیجہ ایک دوسرے کو پچھاڑنے کی درپے طاقتوں کے ساتھ دنیا بھی تقسیم ہوجائے گی کہ جس میں دنیا کی قومیں تجارتی لحاظ سے یا تو چین کے ساتھ کھڑی ہوں گی یا پھر امریکہ کے ساتھ۔‘ دراصل اس سال کا سب سے اہم سوال ہی یہ ہوسکتا ہے کہ کیا دنیا کے وہ متعدد ممالک جو ان دونوں طاقتوں میں سے کسی ایک کے ساتھ کھڑا نہیں ہونا چاہتے کیا وہ مجبوراً صف بندیوں کا حصہ بنیں گے یا نہیں۔ (مضمون نگار امریکہ برطانیہ اور اقوام متحدہ میں پاکستان کی سفیر رہ چکی ہیں۔ بشکریہ: ڈان۔ تحریر: ڈاکٹر ملیحہ لودھی۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)