محصولات بطور قومی ذمہ داری

فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے اراکین قومی و صوبائی اسمبلیوں (پارلیمنٹیرینز) کی طرف سے ادا کردہ ٹیکسیز کی تفصیلات جاری کی ہیں اور اُنہیں سال دوہزارنو کے ٹیکس گوشواروں پر مبنی ٹیکس ڈائریکٹری کا حصہ بنا دیا گیا ہے۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے اثاثہ جات کے سالانہ گوشوارے جمع نہ کرانے والے پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کے ارکان کی فہرست جاری ہوئی ہے۔ متذکرہ سال کے دوران وزیراعظم عمران خان نے اٹھانوے لاکھ روپے‘ وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے دو ہزار روپے‘ میاں شہباز شریف نے بیاسی لاکھ‘ آصف علی زرداری نے بائیس لاکھ روپے‘ بلاول بھٹو زرداری نے پانچ لاکھ روپے‘‘ وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے دس عشاریہ ننانوے لاکھ روپے اور وزیراعلیٰ بلوچستان قدوس بزنجو نے دس عشاریہ اکسٹھ لاکھ روپے انکم ٹیکس کی مد میں ادا کئے۔ اسی طرح سپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویز الٰہی نے نو لاکھ روپے اور چودھری مونس الٰہی نے پینسٹھ لاکھ روپے‘ وزیر خزانہ شوکت ترین نے دو کروڑ روپے سے زائد ٹیکس ادا کیا جبکہ سابق وزیراعظم اور سینیٹ میں قائد حزب اختلاف سید یوسف رضا گیلانی نے انکم ٹیکس کی مد میں ایک دھیلا بھی ادا نہیں کیا۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے باور کرایا گیا ہے کہ پندرہ جنوری تک گوشوارے جمع نہ کرانے والے ارکان کی رکنیت معطل کر دی جائے گی لیکن یہاں مسئلہ صرف یہ نہیں کہ اراکین اسمبلی ٹیکس گوشوارے بروقت جمع نہیں کروا رہے بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنے رہن سہن کے مطابق ٹیکس ادا نہیں کرتے اور اِسی جانب متوجہ کرتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا ہے کہ ”پاکستان کے ٹیکس نظام میں تضادات موجود ہیں‘ ہمیں ترقی پذیر ٹیکسیشن کی طرف جانا ہوگا جس کا مطلب یہ ہے کہ صرف آمدن پر ٹیکس ہو۔ جیسے جیسے ٹیکس کے دائرہئ کار میں وسعت آئے گی‘ ٹیکسوں کی شرح بھی کم ہوتی چلی جائے گی جبکہ ضرورت اِس امر کی ہے کہ پاکستان کی کل آبادی کے تناسب سے ٹیکس گزاروں کی تعداد کو بیس فیصد کی سطح تک بڑھایا جائے۔ اِس سلسلے میں ’ایف بی آر‘ کو ڈیڑھ کروڑ افراد کا ڈیٹا مل چکا ہے اور اسی ماہ لوگوں کو ٹیکس نوٹسیز بھجوانا کا عمل بھی شروع کر دیا جائے گا۔ وزیر خزانہ کی رائے میں انکم ٹیکس اور جی ایس ٹی کے سوا کوئی ٹیکس نہیں ہونا چاہئے۔ محصولات میں اضافے کے لئے ٹیکس نیٹ بڑھانے کی ضرورت ہے۔ اس وقت ملک کی بائیس کروڑ کی آبادی میں سے صرف تیس لاکھ افراد ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ پاکستان کی ترقی کا دارومدار وفاقی اور صوبائی میزانیوں (بجٹ) میں ٹیکس سے وصول ہونے والی آمدنی پر ہوتا ہے کیونکہ میزانیوں میں ٹیکس وصولی کے جو اہداف متعین ہوتے ہیں‘ اُن کی بنیاد پر ہی ترقیاتی منصوبوں کے لئے رقومات مختص کی جاتی ہیں۔ اگر ٹیکسوں کی وصولی کی شرح متعینہ اہداف سے کم رہے تو اس سے ترقیاتی منصوبوں پر کام رک جاتا ہے۔ نتیجتاً صنعتی پہیہ بھی جامد ہو جاتا ہے اور ہماری معیشت کے استحکام کے خواب بھی ادھورے رہ جاتے ہیں چنانچہ قومی معیشت کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے اور ترقیاتی منصوبے جاری رکھنے کیلئے حکومت کو بیرونی قرضوں پر تکیہ کرنا پڑتا ہے۔ اگر ملک میں ٹیکس کلچر مستحکم ہو اور معاشرے کا ہر طبقہ اپنی قابل ٹیکس آمدنی پر خوش دلی اور خوش اسلوبی کے ساتھ ٹیکس ادا کر رہا ہو اور ایف بی آر سمیت متعلقہ انتظامی مشینری ٹیکس چوروں کے خلاف بروقت اور ٹھوس تادیبی اقدامات اٹھا رہی ہو تو نہ صرف ٹیکس وصولی کے متعینہ اہداف پورے ہو سکتے ہیں بلکہ ٹیکس نیٹ میں وسعت بھی پیدا ہو سکتی ہے۔بدقسمتی یہ بھی ہے کہ پاکستان میں ٹیکس کلچر پنپ ہی نہیں پایا اور بااثر طبقات نے ٹیکس چوری کرنا یا سرے سے ٹیکس ادا نہ کرنا اپنا شعار بنالیا جن میں بطور خاص پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں بیٹھی وہ شخصیات بھی شامل رہی ہیں جنہیں ٹیکس کی ادائیگی میں خود کو مثال بنا کر ٹیکس کلچر کے فروغ و استحکام کے لئے اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔ اس طرح ٹیکسوں کا سارا بوجھ تنخواہ دار طبقات اور عام آدمی پر آپڑتا ہے جن کی تنخواہوں میں سے ازخود ٹیکس کی کٹوتی ہوتی رہتی ہے جبکہ وہ یوٹیلٹی بلوں اور مختلف اشیا کی خریداری پر بھی براہ راست اور بالواسطہ ٹیکس ادا کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: ڈاکٹر وجاہت خان۔ ترجمہ: ابوالحسن امام)