ذہنی تناؤ: اضافے کی وجوہات

انسان کی جسمانی صحت کے ساتھ اُس کا ذہنی طور پر تندرست ہونا بھی یکساں اور انتہائی ضروری ہوتا ہے۔ ذہنی صحت کی بحالی کے لئے خصوصی معالجین و مراکز ہوتے ہیں لیکن اوّل تو اکثریت کو اِن کی موجودگی کا علم نہیں ہوتا اور دوسرا عوام کی اکثریت ذہنی صحت کو خاطرخواہ اہمیت بھی نہیں دیتی۔ ایک مرتبہ پھر معالجین اِس بات کی جانب توجہ دلا رہے ہیں کہ پاکستان میں ذہنی صحت سے جڑے مسائل تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ جب عمر کے ہر حصے سے تعلق رکھنے والے افراد اِنزائٹی (گھبراہٹ)‘ ڈپریشن (ذہنی تناؤ) اور خودکشی (منفی خیالات) کی طرف مائل ہوں تو یہ اِس اَمر کی گواہی ہوتی ہے کہ اُن کی ذہنی صحت سے جڑے مسائل شدت اختیار کر گئے ہیں اور یہ سوچ کر ہی جسم میں کپکپی سی دوڑ جاتی ہے۔ آج بھی یہ تصور عام پایا جاتا ہے کہ ذہنی و نفسیاتی مسائل کی بڑی حد تک ذمہ دار ہماری بائیولوجی بھی ہے مثلاً اکثر یہ بات سننے کو ملتی ہے کہ ہمارے جینز ہمیں پہلے کے مقابلے میں زیادہ کمزور بنا رہے ہیں یا پھر ان مسائل کا سبب دماغ میں کیمیائی عدم توازن ہے۔ انٹی ڈپریسنٹ ادویات کو آج بھی علاج کا اوّلین طریقہ تصور کیا جاتا ہے، مطلب یہ کہ ان مسائل کا واحد مناسب حل ادویات کے استعمال کو قرار دیا جاتا ہے تاہم ایسے کئی ماہرین ہیں جو اِن روایتی تصورات اور غلط فہمیوں پر اعتراض اٹھاتے ہیں۔ انٹی ڈپریسنٹ ادویات لینے اور ذہنی صحت کی بحالی کے سفر کے تجربے کی بنیاد پر یہ ماہرین کہتے ہیں کہ ”اگرچہ ادویات سے قلیل المدت فائدہ تو حاصل ہوتا ہے لیکن یہ اپنا عادی بنا دیتی ہیں اور بنیادی مسائل ٹھیک کرنے کے بجائے محض علامات کا علاج کرتی ہیں۔“ لہٰذا معلوم ہوا کہ ذہنی صحت کی خرابی کی صورت ادویات حتمی علاج نہیں۔ آج کل ڈپریشن اور انزائٹی کے شکار افراد کی تعداد میں اضافے کی ایک بڑی وجہ معاشرے کے دیگر افراد سے بڑھتا عدم تعلق ہے۔ تعلق قائم کرنا ہم انسانوں کی فطرت میں ہے‘ ہم قبائل میں جنم لینے والے‘ اپنے پیاروں کے ہاتھوں پروان چڑھنے اور اپنی شخصیت کو اپنے معاشرے کے رنگ میں ڈھالنے والی مخلوق ہیں مگر افسوس کے ساتھ دورِ حاضر کی تیز رفتار دنیا میں انسان اپنے قبائل سے الگ ہوگئے ہیں اور ہم نے اپنے بارے میں ایک گروہ کی صورت میں اجتماعی حیثیت سے سوچنے کے بجائے الگ الگ فرد کی حیثیت سے اپنی سوچ کا زاویہ انفرادی حیثیت تک محدود کردیا ہے۔ موجودہ دور میں ہمیں بار بار یہ کہا جاتا ہے کہ اپنی ضروریات کو خود پورا کرنے کے قابل بنو‘ کسی پر منحصر نہ رہو اور اپنا خیال خود رکھو، اسی لئے ہماری توجہ اپنی انفرادی ضروریات کو پورا کرنے پر مرکوز ہوگئی ہے۔ یہ بات ذہن نشین رہے کہ اگرچہ آج کا انسان سوشل میڈیا پر لوگوں سے سطحی طور پر تعلق تو قائم کرلیتا ہے لیکن اپنی حقیقی زندگی میں لوگوں سے گہرے تعلقات قائم کرنے سے اکثر قاصر رہنے کی وجہ سے وہ اپنے مسائل‘ خوشیاں اور غم بانٹ نہیں سکتا۔ ذہنی صحت کی بحالی کے مراکز جیسی خدمات ایک انسان کی سب سے بڑی اور بڑی حد تک نظر انداز کی گئیں۔ نفسیاتی ضروریات یہ تقاضا کرتی ہیں کہ آپ کو دیکھا اور سنا جائے۔ لوگ اکیلے پن‘ تعلقات میں مسائل‘ غصے پر قابو نہ پانے‘ خودکشی کی سوچ‘ سکول یا دفتر میں درپیش مسائل اور مختلف چیزوں کی لت میں پڑجانے جیسی وجوہات کی بنا ء پر فون کے ذریعے ان مراکز سے رابطہ کرتے ہیں اور ان پر کوئی رائے قائم کئے بغیر مدد فراہم کی جاتی ہے۔ یورپ‘ ایشیاء‘ شمالی امریکہ اور آسٹریلیا میں ہونے والے متعدد مطالعوں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جتنا زیادہ آپ مادیت پسند میں مبتلا رہیں گے اتنا ہی زیادہ آپ الجھنوں اور اداسیوں کی زد میں آئیں گے۔ آئی فون یا تنخواہ میں اضافے جیسی مادی چیزیں ابتدائی طور پر تو خوشیاں فراہم کرسکتی ہیں مگر کچھ وقت بعد وہ چیزیں بھی پرانی ہوجائیں گی اور پائیدار خوشیاں فراہم نہیں کریں گی‘ نہ ہی آپ اپنی زندگی بھرپور انداز میں گزارنے لگیں گے۔ سماجی موازنے اور خود کو دوسروں کے برابر بنانے کا دباؤ یا پھر کون سی گاڑی چلانی ہے یا اپنے بچے کی شادی کی تقریب کتنی شاہانہ ہونی چاہئے اس طرح کی فکریں کسی انسان کی خود اعتمادی کو نقصان پہنچانے کا باعث ہوتی ہیں اور یہ ڈپریشن اور انزائٹی جیسے احساسات میں شدت پیدا کرتی ہیں۔ بدقسمتی سے بطور ایک معاشرہ ہم خود سے وہی حشر کر رہے ہیں جو بقول ہمارے ہاں استعمال ہونے والا فاسٹ فوڈ ہماری صحت کا حشر کر رہا ہے لیکن جانتے ہوئے بھی ہم ”فاسٹ فوڈ‘‘استعمال کرتے ہیں جو صحت کا دشمن ہے۔ سمجھنے لائق ہے کہ جس طرح بازاری کھانا ہماری غذائی ضروریات کو پورا نہیں کرتا اسی طرح بازاری اقدار ہماری نفسیاتی ضروریات کو پورا نہیں کرپاتیں۔ آج کے انسان کے پاس دنیا کی ہر آسائش موجود ہے۔ ایک شاندار گھر‘ جدید برقی آلات وغیرہ جیسی آسائشیں لیکن پھر بھی اِسے مشکلات درپیش ہیں کیونکہ اِس کا انسانی معاشرے اور سماج سے رابطہ ٹوٹ چکا ہے اور اِس رابطے یا تعلق کو بحال کئے بغیر ذہنی امراض یا نفسیاتی الجھنوں کا حل دریافت نہیں ہو سکے گا۔ (بشکریہ: ڈان۔ تحریر: ماہین قاضی۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)